Ads

معاشی ریلیف ملنے کا امکان اور زمینی حقائق

معیشت کی بحالی حکومت کا اہم ہدف ہے، اس میں کوئی شک نہیں ، اس کے استحکام کے لیے معاشی مسیحاؤں کی جدوجہد اور اقدامات ایک دوسرا محاذ ہے، جہاں عوام کو معاشی ثمرات کی فراہمی کا ٹاسک  ایک ناگزیر چیلنج بن چکا ہے اور زندگی کے بے پناہ مصارف اور رزق کے حصول میں شب وروزکی محنت کے باوجود مہنگائی اور محدود آمدنی کے باعث عام آدمی کے لیے مالی مجبوری کا ایک سوالیہ نشان پیدا کیا ہے، عام آدی اس بحران کا شکار ہے کہ زندگی کی کس ضرورت کو پورا کرے اور کس مشکل کو کتنے پیسوں میں دور کرے۔

ایک طرف روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، دوسری جانب عوام کی قوت خرید سوالیہ نشان بن گئی ہے جب کہ عام آدمی کے لیے گھریلو سطح پر اپنا بجٹ تیارکرنا، اشیائے ضرورت کی فراہمی کی مناسب قیمت پر عدم دستیابی نے نہ صرف اسے اعصابی دباؤکا شکارکر دیا ہے ، بلکہ اس کی زندگی کے اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بادی النظرمیں اقتصادی نظام اور ڈھیر سارے مالیاتی پروگراموں سے بھی اسے ریلیف ملنے کا امکان دیومالائی کہانی کا روپ دھارگیا ہے۔

ادھر ضلعی انتظامیہ کا اشیاء ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا کوئی حربہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا، ملک بھر میں طلب ورسد اور پرائس کنٹرول اتھارٹیز کے فقدان کی وجہ سے آڑھتی، دکاندار، تاجر مل کر گراں فروشی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،کوئی میکنزم انھیں کنٹرول کرنے کے لیے فعال نہیں۔

صارفین کے مطابق ملک بھرکی اہم مارکیٹوںمیں مجسٹریٹس بٹھانے اور ویجیلنس ٹیمیں گشت پر مامورکرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ، ویسے بھی صارفین کو کوئی ریلیف نہیں ملا، سبزیوں پھلوں کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں، سبزی منڈیوں میں کسان مارکیٹس قائم کی گئی ہیں جہاں کسان براہ راست صارفین کو اجناس فروخت کر سکتا ہے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ فی الحال سامنے نہیں آ سکا۔

ہمارے نامہ نگارکے مطابق لاہور انتظامیہ روزانہ کی بنیاد پر پھل سبزیوں اور ضروری اشیاء کی سرکاری قیمتیں مقررکرتی ہے لیکن اس قیمت پر شہر میں کہیں کوئی چیز دستیاب نہیں ہوتی، اے سی، پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو سختی کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے لیکن وہ چند ایک دکانداروں کو جرمانے کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔

دوسری طرف دکانداروں کا کہنا ہے کہ انھیں منڈی سے جس بھاؤ اشیاء ملیں گی وہ اسی بھاؤ بیچیں گے پلے سے ڈالنے سے تو رہے ، ان کا مزید کہنا ہے کہ قیمتیں زیادہ ہونے سے ان کی سیل کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں آمدن بھی کم رہتی ہے، قیمتیں کم ہوں تو سیل زیادہ ہوتی ہے اور آمدن بھی زیادہ ہوتی ہے اس طرح ہمیں بھی نقصان ہو رہا ہے، پھر قیمتیں زیادہ ہونے سے گاہکوں سے توتکرار بھی رہتی ہے جس سے انھیں بھی ٹینشن ہوتی ہے۔

ادھر انتظامیہ کے اہلکار مفت مشورے دیتے ہیں کہ ٹماٹر مہنگا ہے تو دہی استعمال کر لو، پھر پہلے لوگ ٹماٹر ، ادرک کے بغیر اورکم لہسن، پیاز ڈال کر بھی ہانڈی مزیدار بنا لیتے تھے آج بھی ایسا ممکن ہے، لیکن لوگ نہ جانے کیوں چٹخاروں میں پڑے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء ہمارے نمایندہ خصوصی کے مطابق لاہور میں ٹماٹر کی سرکاری قیمت 175 روپے ہے لیکن ڈھائی سے تین سو روپے کلو تک فروخت ہورہا ہے، مشیر خزانہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کی جانب سے 17 روپے کلو ٹماٹر اور 5 روپے کلو مٹر کی فراہمی کا دلچسپ تقابلی جائزہ میڈیا میں صارفین کے لیے مذاق بنا ہوا ہے، رہبرکمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کا کہنا کہ ٹماٹر کی قیمتوں کا پتا نہیں، یہی لوگ معیشت چلانے کے دعویدار ہیں۔

مارکیٹ ذرایع کے مطابق ادرک چائینہ سرکاری قیمت 345 لیکن 450 روپے تک فروخت ہونے لگاہے لہسن دیسی245کے بجائے 400 شملہ مرچ 224کے بجائے 350سے 400روپے کلو مل رہی ہے، مٹر91کے بجائے150بھنڈی57سے بڑھ کر 100روپے کلو ہوگیا۔ آلو60سے بڑھ کر80 سے 100 روپے کلو پیاز72کے بجائے120روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے، سبزمرچ200،لیموں220بند گوبھی120،گوبھی 100،کھیرا 80روپے،مولی30 سے50 اورگاجر 80 روپے فی کلو میں فروخت ہورہی ہے۔ سیب120کے بجائے180روپے کلو سیب کالا کولو125 سے بڑھ کر 200 روپے کلو ہوچکا ہے۔

راولپنڈی سے ہمارے نامہ نگار خصوصی کے مطابق ٹماٹر صرف سوات ،ہزارہ ڈویژن سے سپلائی کیا جا رہا ہے، اور اس کی خوردہ قیمت 200روپے کلو تک پہنچ گئی ہے، کم سپلائی کی وجہ سے بڑے آڑھتیوں کی چاندی ہوگئی ہے، روزانہ راولپنڈی لائے جانے والے 2کنٹینرز میں سے ایک کنٹینر آڑہتی روک لیتے ہیں اور پہلا مہنگے داموں فروخت ہونے کے بعد دوسرا اقساط میں فروخت کرتے ہیں، انجمن تاجران سبزی منڈی کے صدر غلام قادر میر نے بتایا ٹماٹرکی فصل خراب ہونے سے طلب اور رسد کا توازن خراب ہے،پیاز بھی90 روپے کلو تک پہنچ گیاہے۔

کراچی سے بزنس رپورٹرکے مطابق ٹماٹر بدستور 250سے 280روپے کلو فروخت ہورہا ہے قیمتوں میں استحکام کے لیے امپورٹرز نے ایران سے ٹماٹر درآمد کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں صارفین انجمنوں کے اشتراک عمل سے صورتحال کو بہتر کرنے کا ملک گیر پلیٹ فارم بھی کمزور ہے،یہی وجہ ہے کہ عوام ایک مربوط اقتصادی سسٹم کے فیوض وبرکات سے محروم ہیں اور حکومتی چارہ گر ابھی تک اعدادوشمارکے مالیاتی گورکھ دھندے سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔

اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور دہرے خسارے پرقابو پانے کے لیے گزشتہ سال درآمدات کے لیے پالیسی نرم کردی ہے، اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کسی شخص کی رقم کی واپسی سے نہیں ہوا، زرمبادلہ لانے والے ایکسپورٹرزکو سپورٹ کرنا ضروری ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضاباقر کا کہنا ہے کہ ذخائر قرضے لینے سے بڑھنے کا تاثرغلط ہے، جب کہ ڈالرکی قدر میں ٹھہراؤ آرہا ہے۔

دریں اثنا عوام کا کہنا ہے کہ ہر چیز مہنگی ہورہی ہے کھائیں تو کیاکھائیں، ایک خاتون کا کہنا تھا اس کے گھرانے کا کھانے پینے کا خرچہ  پانچ گنا بڑھ چکا ہے وہ جو چیزیں ایک ہزار میں خرید لیتی تھی آج پانچ ہزار میں بھی نہیں مل رہیں۔

نمایندہ ایکسپریس کے مطابق سیکریٹری زراعت پنجاب نے ایک اجلاس کے دوران بتایا ہے کہ حکومت پنجاب کی طرف سے پھل وسبزی منڈی بادامی باغ ، سنگھ پورہ،ملتان روڈ لاہور، ملتان، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالا،بہاولپور، شیخوپورہ، قصور،ڈی جی خان، بہاول نگر،صادق آباد، میانوالی، بوریوالا، مظفر گڑھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ،سیالکوٹ،جہلم،منڈی بہاؤالدین، بھکر، پاکپتن، اوکاڑہ، ساہیوال، گجرات،رحیم یارخان، چکوال،راجن پور اور چیچہ وطنی میں کاشتکاروں کے لیے جگہ مخصوص کی جا رہی ہے جہاں کاشتکار کمیشن و مارکیٹ فیس کی ادائیگی کے بغیربراہ راست صارفین کوپھل وسبزیاں فروخت کررہے ہیں ۔

روٹی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے عوام پریشان ہیں، کراچی، کوئٹہ،پشاور اور پنجاب میں نان، پتیری روٹی اور قندھاری نان کی قیمتیں ملٹی پل ہیں۔ کہیں عام روٹی10,7,6روپے اور کہیں 12سے 20روپے میں دستیاب ہے، کوئٹہ اورپشاور میں نانبائیوں نے قیمتوں میں مزید اضافے کامطالبہ کیا ہے۔

آٹا مہنگا اورکہیں معیاری آٹا ناپید ہے۔ مکانات اور ٹرانسپورٹ کرائے دسترس سے باہر ہوگئے ہیں، دوائیں مہنگی، دالوں اور لنڈے کے ملبوسات کے دام بے قابو ہوئے ہیں۔ کم تنخواہ پانے والے اذیت میں ہیں، ان پر مہنگائی کا پہاڑ گرگیا ہے اور ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ارباب معیشت اس اقتصادی تناؤ اور ذہنی دباؤکوکوئی حل نکالیں، محض سرکاری دعوؤں سے ریلیف ملنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔

 

The post معاشی ریلیف ملنے کا امکان اور زمینی حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/374RBmP
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment