Ads

پڑھوگے، لکھو گے، بنوگے نواب (دوسرا اورآخری حصہ)

جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالم میں ذکرکر رہی تھی کہ ہمارا معاشرہ مصنوعی انسانیت کی راہ پر چل رہا ہے، اسپتال والے کسی مرتے ہوئے مریض کے اہل خانہ کو وقتی تسلی دینے کے لیے مصنوعی تنفس پر منتقل کردیتے ہیں اور ایک طے شدہ وقت کے بعد موت کی تصدیق کر دیتے ہیں۔ اس میں بھی ان کا کاروباری مفاد پوشیدہ ہوتا ہے، پرائیوٹ اسپتالوں کا لاکھوں کا بل لواحقین ادا کرتے ہیں تو انھیں لاش ملتی ہے ورنہ وہ بھی روک لی جاتی ہے کہ پہلے بلزکلیئرکریں پھر’’ ڈیڈ باڈی‘‘ ملے گی۔

مسیحائی کرنے والے بے رحم ہوجائیں اور مال ودولت جمع کرنا ، ان کا مطمع نظر ہوجائے تو ایسے انسانیت سوز واقعات تقریبا روز ہی جنم لیتے ہیں۔ غیرتربیت یافتہ میڈیکل اسٹاف کے ہاتھوں کتنے ہی ننھے پھول یا مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔کتنے مریض سرکاری اسپتالوں میں بہتر علاج نہ ہونے یا ڈاکٹرزکی ہڑتال کے دوران ایڑیاں رگڑ رگڑ کا دم توڑ دیتے ہیں لیکن ایک پتہ تک نہیں ہلتا ،کوئی مقدمہ درج نہیں ہوتا۔

آج توکار چلانے والا ،کسی دوسرے یا پیدل چلتے بندہ خدا کو انسان کا درجہ دینے کو تیار نہیں آتا، ایسی تیزرفتاری کا مظاہرہ کرتا ہے کہ جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو اور اس کی راہ میں آنے والی ہر شئے اس کے تلے آکرکچلی جائے اسے کوئی پرواہ نہیں۔ اگرکسی جگہ سڑک پرگندا پانی کھڑا ہے تو وہ کسی راہ چلتے کا خیال کیے بغیر چھینٹے اڑاتے ہوئے فراٹے بھرتے گزر جاتا ہے اور اس غلط عمل پر مسکراتا ہے کہ ایک صاف ستھرے کپڑے پہنے شخص کا میں نے برا حال کر دیا۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے، یہ حقیقت تلخ تو ہمیشہ سے ہی تھی مگر آج مزید تلخ ترین ہوتی جا رہی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آج کا انسان ایک ایسے خوفناک وحشی درندے کا روپ دھار چکا ہے۔

رشتوں کا تقدس ختم ہوچکا ہے، کیسے کیسے ہولناک واقعات میڈیا میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ باپ اپنے ہاتھوں بیٹے، بیٹیوں اور اپنی بیوی کو قتل کررہا ہے۔ بھائی ، بھائی کو قتل کررہا ہے، خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ تشدد اور مسخ شدہ لاشیں سڑکوں ، پارکوں یا سنسان جگہوں پر مل رہی ہیں۔ قصور میں کئی بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اور پھر ان کے سر دھڑ سے الگ ملے۔ کیسے سفاک اور بے رحم درندے بن چکے ہیں یہ قاتل بھی کہ شیطان کی شیطانیت بھی شرما جائے۔ بس بے اختیار منہ سے نکلتا ہے کہ آج انسانیت کہاں دفن کر دی گئی ہے؟

آج آپس میں ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ ہم میں نہیں رہا۔ پاکستانی سماج میں عدم برداشت کا مادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اتنی معمولی سے بات پر ہم غصے میں آجاتے ہیں کہ دوسرے کی جان تک لے لیتے ہیں۔ رہی سہی کسر نودولتیوں کے وی آئی پی کلچر نے پوری کردی ہے جو طاقت کے زعم میں ظلم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔ ڈبل کیبن گاڑی میں ایک ’’ شہزادہ ‘‘ بیٹھتا ہے اس کے ساتھ کم ازکم چھ سے سات مسلح گارڈز ہوتے ہیں اور ڈرائیور راہ میں آنیوالی ہر چیزکو اڑا دینا چاہتا ہے۔ گارڈز تو اس بات پر تیار نظر آتے ہیں کہ وہ گاڑی سے اترکرکسی پر تشدد شروع کردیں۔ پہلے تو امراء و روساء کی خاندانی روایات ہوتی تھیں اور اب حرام کا مال کھانے والے انسان کو انسان نہیں سمجھتے،انسانیت سچ میں دم توڑ رہی ہے۔

ہم ایک زوال پزیر مسلم معاشرے کا فرد بنتے جا رہے ہیں۔ وہ بھی کیا وقت تھا کہ جب دوست اپنے دوست کی خاطر جان دے دیتا تھا اور اب دوستی مکاری ، عیاری ، چالاکی اور دوسرے کو چونا لگانے کا سوا کچھ نہیں اور مطلب کی دوستی مطلب کے یار بلکہ دنیا مطلب کی بن چکی ہے ۔ گئے وقت میں بھائی کی غلطی چھپانے کے لیے دوسرا مارکھا جاتا تھا اور اب بھائی ، بھائی کے خون کا پیاسا بن چکا ہے ، پہلے مسافروں کو روک روک کرکھانا کھلایا جاتا تھا، اور اب توکہیں ٹریفک جام ہوجائے تو لوٹ مارکرنیوالے فورا پہنچ جاتے ہیں۔

پہلے بچے اپنے گھروں کے سامنے گلی ڈنڈا کھیلتے کھو کھو کھیلتے اور مذاق میں بھی ڈنڈا اپنے ساتھی کو نہ مارتے تھے۔ موجودہ دورکے بچوں کو رسی کودنے کا کھیل بھی نہیں آتا کیونکہ ہر وقت موبائل اورکمپیوٹر پر نظریں جمائے رہنے سے جسمانی مشقت کی عادت نہیں رہی ہے۔گزرے دنوں کی باتیں ہیں جب لوگ سچے اور مکان کچے ہوا کرتے تھے۔جب ان کچے گھرندوں سے محبت کی خوشبو ہوا میں گردش کرتی ہوئی دور دور تک سفرکرتی۔ جب خونی اور دل کے رشتے ہر قیمت میں نبھائے جاتے۔ جب پڑوسیوں کے بچوں کو بھی حق سے ڈانٹا جاتا تو وہ سہم جاتے، لیکن آج یہی بچے پڑوسی کی کار یا موٹر سائیکل کو نقصان پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں یہ ان کے لیے انٹرینمنٹ ہے۔

ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے مین گیٹ کے سامنے کار پارک کر کے اپنے گھر جا کر سو جاتا ہے یہ نہیں سوچتا کہ اسے کوئی ایمرجنسی ہوسکتی ہے۔ وہ بیچارا اپنی کار کیسے نکالے گا۔ مساجد میں جاکر لوگ خوب نمازیں ادا کرتے ہیں لیکن حقوق العباد کا انھیں ذرا برابر کوئی خیال نہیں آتا۔ پڑوسی کے دین اسلام میں اتنے زیادہ حقوق ہے کہ صحابہ کرام نے ایک مرتبہ قیاس کیا کہ کہیں پڑوسی کو احکام الہی کی روشنی میں جائیداد کا حق دار نہ ٹھہرا دیا جائے۔ اسلام کا پڑوس تو چالیس گھر تک ہے۔ معاشرے کے ہرفرد کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ وہ بھی کیا سنہرا دور تھا، جب پڑوسیوں کے دکھ سکھ سب سانجھے تھے۔

اس وقت اگر کسی کے گھر مہمان آجاتا توگھر والوں کے علاوہ وہ مہمان پورے علاقے کا مہمان تصور ہوتا اور سب پڑوسی اس کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نا رکھتے۔ چھوٹے گھروں میں بہت بڑے دل والے دلوں میں راج کرگئے، مگر اب وقت بدل چکا ہے ہر بندہ جیسے بدل چکا ہے کچے گھروں کے سچے لوگ بڑی بڑی دیواروں کے پیچھے کہیں چھپ گئے ہیں اور احساس بے حسی کی چادر میں کہیں چھپ گیا۔ آج انسان اپنوں کے درمیان رہ کر اپنوں کو ڈھونڈ رہا ہے، احساس مر چکا ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے، ہماری مشرقی روایات ختم ہوتی جا رہی ہیں، رشتوں کا تقدس اور بھرم ختم ہوتا جا رہا ہے۔

میرے کالم کے قارئین بھی سوچتے ہوں گے کہ میں رجائیت پسند ہوں، مایوسی اور نا امیدی کی باتیں کررہی ہوں، ایسا ہرگز نہیں ہے، اگر ہم اپنی اصلاح پر آمادہ ہوجائیں اور احساس کا جذبہ اپنے اندر بیدارکریں کیونکہ احساس دنیا کا خوبصورت اور طاقتور ترین رشتہ ہے۔احساس ہی ہے جو انسان کو انسانیت کے رشتے سے جوڑتا ہے۔ دین اسلام ہمیں احساس کی تربیت یوں دیتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایک مسلمان بھائی کو تکلیف ہو تو دوسرا بھائی اس کی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ممکن ہو اپنے بھائی کی تکلیف دورکرنے کی کوشش کرے۔ خواہ راستے میں پڑا پتھر ہی کیوں نہ ہٹا دیں احساس کی قیمت حساس انسان ہی جانتا ہے۔

ہمارے احساس کے حقدار سب سے پہلے ہمارے ماں باپ ہیں جن کے حقوق ہم ان کی زندگی میں کیا مرنے کے بعد بھی ادا نہیں کرسکتے۔ رشتوں کی موت بے حسی میں چھپی ہے۔ معروف رائٹر، ڈرامہ نگار اشفاق احمد بھی کیا خوب کہہ گئے کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پے نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس مرجائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو زندہ معاشرے اور قوم میں تبدیل کرنے کے لیے اپنے اندر احساس کو بیدارکریں، احساس ہی انسانیت کو مرنے سے بچا سکتا ہے۔

The post پڑھوگے، لکھو گے، بنوگے نواب (دوسرا اورآخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32xs2qP
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment