Ads

یہ حارث رؤف کون ہے؟

’’یہ بگ بیش والوں کو کیا ہو گیا، بتاؤ حارث سہیل سے پاکستان میں پرفارمنس ہو نہیں رہی اور اسے آسٹریلیا بلا لیا‘‘ چند روز پہلے کی بات ہے جب میرے ایک دوست نے مجھ سے یہ کہا، میں نے اس کی تصحیح کرتے ہوئے بتایاکہ حارث سہیل نہیں میلبورن اسٹارز نے حارث رؤف سے معاہدہ کیا ہے، ’’اچھا یہ حارث رؤف کون ہے‘‘؟ یہ اس کا اگلا سوال تھا، وہ لاہور قلندرز کا فاسٹ بولر ہے، پی ایس ایل میں بھی کھیلا تھا، میں نے اپنے دوست کی معلومات میں تھوڑا اضافہ کیا اور سوچنے لگا کہ مجھے خود تو حارث رؤف کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں دوسروں کو کیا بتاؤں گا۔

لاہور قلندرز کے انسائیکلوپیڈیا فیضان لاکھانی سے ہی کچھ پوچھتا ہوں، بات آئی گئی ہوگئی،عموماً پی ایس ایل فرنچائزز کا یہ اسٹائل ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو خوب بڑھا چڑھا کرپیش کرتی ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد وہ منظرعام سے غائب ہو جاتے ہیں، مجھے لگا حارث رؤف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا، مگر پھر ایک دن میڈیا میں ہر جانب بگ بیش میچ میں پاکستانی بولر کی 5 وکٹوں کا چرچا دیکھا تو  اندازہ ہوا کہ اس کھلاڑی میں دم ہے، عاقب جاوید سے میری ’’اخبار وطن‘‘ کے دور میں خاصی واقفیت تھی مگر پھر دوریاں ہو گئیں۔

میں نے انھیں فون کر کے پوچھا ’’عاقب بھائی یہ حارث رؤف کون ہے‘‘ اس پر انھوں نے مجھے پیسر کی کہانی سنائی جو میں اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ دیگر نوجوان کرکٹرز کو تحریک ملے کہ ان کا ٹائم بھی آ سکتا ہے، پاکستان کے 70فیصد نوجوان ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلتے ہیں حارث بھی ان میں سے ایک تھے، ہمیں ایک بات تسلیم کرنا ہوگی کہ ملک کو پی ایس ایل سے نیا ٹیلنٹ ملا، کئی ایسے کھلاڑی جنھیں کوئی لفٹ کرانے کو تیار نہ تھا وہ بھی منظرعام پر آ گئے، لاہور قلندرز کی میدان میں کارکردگی اتنی خاص نہیں اور عموماً آخری نمبر اسی کا ہوتا ہے۔

البتہ پلیئرز ڈیولپمنٹ کے معاملے میں اس نے دیگر فرنچائزز کوپیچھے چھوڑا ہوا ہے،راولپنڈی کی ایک دکان پر جزوقتی سیلز مین کا کام کرنے والے حارث کو جب رائزنگ اسٹار ٹرائلز کا علم ہوا تو وہ گوجرانوالہ پہنچ گئے،وہاں عاقب جاوید نے ان کی صلاحیتوں کو جانچ لیا،عاقب اپنے موڈ مزاج کے انسان ہیں  صاف گو ہونے کی وجہ سے زیادہ لوگوں سے نہیں بنتی، ہاں اپنے کام میں پکے ہیں،لاہور قلندرز کو انھوں نے نجانے کیا گھول کر پلایاکہ ٹیم کی ناقص کارکردگی کے باوجود انھیں کوچ برقرار رکھا ہے،حارث کے معاملے میں بھی عاقب ڈٹ گئے اور کہا ’’اس لڑکے سے10 سال کا معاہدہ کر لو تاکہ میں اس کی صلاحیتیں نکھار سکوں‘‘، اس کے بعد حارث کا وقت بدل گیا، جو لڑکا کاغذ کے جہاز بنا کر اڑا کر ہی خوش ہو جایا کرتا تھا وہ طویل فضائی سفر کر کے آسٹریلیا پہنچ گیا۔

وہاں مقامی کلب کیلیے میچز کھیلے، اس دوران مہمان  بھارتی ٹیم کے نیٹ پر بولنگ کی تو ویرات کوہلی بھی اسپیڈ سے متاثر ہوئے، ہمیشہ ہارنے والی لاہور قلندرز کی ٹیم اگر ابوظبی کا ٹورنامنٹ جیتی تو اس میں حارث کی تیز بولنگ کا اہم کردار تھا، قسمت اچھی تھی کہ ڈیل اسٹین کے فٹنس مسائل کی وجہ سے بغیر پاکستان ٹیم کی نمائندگی کیے وہ بگ بیش میں شامل ہو گئے، اس میں یقیناً ان کی پی ایس ایل فرنچائز کے اثرورسوخ کا اہم کردار ہو گا،انھوں نے  پہلے ہی میچ میں 2 وکٹیں حاصل کر کے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی مگر ہوبارٹ ہوریکینزکے ساتھ جو ہو گیا وہ اس نے سوچا بھی نہ ہوگا، ایک غیرمعروف بولر نے  طوفانی بولنگ سے پانچ وکٹیں اڑا دیں۔

اس پرفارمنس نے حارث رؤف کو راتوں رات شہرت دلا دی اور آسٹریلوی اخبارات کے صفحہ اول پر بھی تصاویر شائع ہوئیں،2میچز میں 7 وکٹیں لینے کے بعد  انھیں اسٹین کے فٹ ہونے پر ٹیم سے باہر ہونا پڑا، مگر جنوبی افریقہ پیسر بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’نوجوان کرکٹر کی کارکردگی نے مجھ پرفارمنس کیلیے دباؤ بڑھا دیا‘‘ابھی صرف آغاز ہوا اور حارث کو بہت آگے جانا ہے،بقول صحافی عمر فاروق کالسن وہ انھیں پاکستانی ورلڈکپ اسکواڈ میں دیکھ رہے ہیں۔

مستقبل میں کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا مگر بلاشبہ عاقب جاوید نے سسٹم سے باہر رہتے ہوئے پاکستان کو ایک اچھا فاسٹ بولر دے دیا، حارث رؤف تو ان کی نظروں میں آ گئے مگر پاکستان کے گاؤں دیہاتوں میں نجانے کتنے ایسے کرکٹرز ارباب اختیار کی نظر کرم کے منتظر رہتے ہوئے کھیتوں میں ہل چلاتے یا دکانوں میں  سامان بیچتے ہی زندگی گذار دیتے ہوں گے، اگر کسی کے چچا چیف سلیکٹر ہوں یا والد کی پوسٹ بڑی ہو تو اسے تو فوراً موقع مل جاتا ہے مگر باصلاحیت کھلاڑی چانس کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں، عابد علی سسٹم کے منہ پر سب سے بڑا طمانچہ ہے۔

بیچارہ ہر سیزن میں رنز کے ڈھیر لگا کر موقع کا منتظر ہی رہا، پھر قومی ٹیم میں آیا تو مسلسل اسکور کر کے نظرانداز کرنے والوں کو شرمندہ کر رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ ضائع نہ ہونے دیا جائے،لاہور قلندرز نے جیسے دور دور جا کر ٹیلنٹ ہنٹ کیا پی سی بی بھی کرے، اچھے کرکٹرز منتخب کر کے انھیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں لایا جائے، اکیڈمی کو صرف اعلیٰ حکام کے لنچ، ڈنر یا ایکسرسائز کیلیے تھوڑی بنایا گیا ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا وہ غلط ہیں۔

کیا سمندر سے مچھلیاں ختم ہو سکتی ہیں، پاکستانی پیدائشی کرکٹر ہوتے ہیں،کرکٹ ہمارے خون میں رچی بسی ہوئی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ باصلاحیت کھلاڑیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا،جب کبھی مکمل ایمانداری سے ہرسطح پر سلیکشن ہو گی آپ کو خود نظر آئے گاکہ پاکستان میں ہر طرف بہترین  بیٹسمین اور بولرزموجود ہیں،  سوچیں میلبورن اسٹارز نے کیوں کسی  غیرمعروف کھلاڑی کو اپنی ٹیم میں شامل کیا، انھوں نے یقیناً حارث کا ٹیلنٹ ہی دیکھا ہوگا ناں،پیسر نے بھی فرنچائز کو مایوس نہیں کیا،پاکستانی سلیکٹرز کو بھی ایسا کرنا چاہیے، پھر دیکھیں کتنے عابد علی اور حارث رؤف ملتے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

The post یہ حارث رؤف کون ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MA5H6L
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment