پاکستانی سیاست کا ایک بڑا مسئلہ سیاسی فریقین کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذآرائی ، سیاسی تقسیم اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود اور سیاسی عمل یا سیاسی حیثیت کو قبول نہ کرنا ہے ۔ سیاست میں تنقید ایک فطری امرہے اور سیاسی فریقین اپنی داخلی سیاست سمیت سیاسی مخالفین کی مختلف سیاسی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر اپنا موقف پیش کرسکتے ہیں ۔
لیکن سیاست میں تنقید اور تضحیک کے پہلو کے درمیان بنیادی نوعیت کا فرق ہے اور اس فرق کو قائم کرکے ہی ہم بہتر، مثبت اور قابل قبول سیاسی کلچر کو تقویت دے سکتے ہیں کیونکہ سیاست میں موجود مخالفت کا مقصد دشمنی ، تعصب، نفرت، بغض یا تشدد پسندی پر مبنی رجحانات کو قائم کرنا نہیں ہوتا ۔ جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سیاست کو بنیاد بنا کر ہم اپنے معاشرے کی مثبت تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہماری سیاست کا طرز فکر روائتی فکر سے مختلف ہونا چاہیے ۔
یہ جو گالم گلوچ، تشدد پر مبنی عمل،ذاتی کردار کشی ، نازیبا لفظوں کی ادائیگی، ایک دوسرے کی نفرت میں جھوٹ پر مبنی الزامات ، مکالمہ کو بنیاد بنا کر اپنی بات طاقت سے مسلط کرنا جیسے عمل نے ہماری سیاسی روایات میں بہت سے ایسے سوالات پیدا کردیے ہیں جو عمومی طور پر منفی طور پر سیاسی عمل میں غالب ہوچکے ہیں ۔حالیہ دنوں میں ایک ٹی وی پروگرام میں ایک وفاقی وزیر کا فوجی بوٹ لے کر جانا اور اس کو بنیاد بنا کر سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنا سمیت قومی اداروں کی تضحیک نے ہماری سیاست کا دیوالیہ پن پیش کیا ہے ۔یہ انداز فکر لمحہ فکریہ ہے ۔
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں روزانہ کی بنیادوں پرہمیں ایسے کئی واقعات میڈیا ٹاک شوز، سیاسی مجلسوں ، سیاسی جلسوں یا سیاسی بیٹھکوں میں سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بالخصوص بچوں اور بچیوں کی نفسیات پر بہت برے انداز میں اپنا اثر دکھاتے ہیں اوراس کا عملی نتیجہ سیاست اورجمہوریت کے بارے میں لوگوں کی لاتعلقی یا ناپسندیدگی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہم سیاسی میدان میں موجود عورتوں یا اہل سیاست سے جڑے مردوں کے گھروں میں موجود عورتوں کو بھی سیاسی مخالفت میں لا کر ان کی بھی کردار کشی کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر بہت برے انداز میں منفی عمل کا حصہ بنتا جارہا ہے اور میڈیا ریٹنگ کی اس دوڑ میں میڈیا بھی ایسی خبروں کی تلاش میں ہوتا ہے جو مصالحہ دار بھی ہو او رلوگوں میں ہیجانی کیفیت کو بھی پیدا کرے ۔بدقسمتی سے اہل سیاست خود بھی میڈیا کے ایجنڈے کا حصہ بن کر خود سیاست کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو کلچر ہم سیاست میں پیدا کررہے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں ۔اول سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام اس حد تک کمزور ہے کہ ایسے لوگ جو سیاست میں غیر مہذب انداز یا کسی کے لیے تضحیک کا پہلو پیدا کرتے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی یا ان کے لیے کوئی جوابدہی کا نظام موجود نہیں ہے ۔ دوئم سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی سمجھتی ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سیاسی مخالفین کو آخری حد تک جاکر ان کی کردار کشی یا تضحیک کریں تاکہ وہ ووٹروں کو جذباتی سیاست میں محو رکھ سکیں اور اس کے نتیجے میں ان کی مفاداتی عمل یا سیاست کو تقویت مل سکے ۔
سوئم سیاست او رمیڈیا میں اب ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سیاسی مخالفین کے بارے میں وہ سب کچھ کرسکیں جو سیاست او رمیڈیا کی ضرورت بنتا ہے ۔چہارم سیاست اور اخلاقیات کے درمیان جو خلیج پیدا ہورہی ہے اس میں سیاست عملی طو رپر بغیر کسی سیاسی اخلاقیات کے آگے بڑھ رہی ہے ۔پنجم جب سیاست میں ایشوز کی بنیاد پر سیاست کمزور ہوگی تو اس کا عملی نتیجہ نان ایشوز یا غیر سنجیدہ یا تضحیک پر مبنی سیاسی کلچر کے طور پرسامنے آئے گا۔
ایسی بات نہیں کہ ہماری سیاست ، سیاسی جماعتوں یا اہل دانش میں سنجیدہ طرز فکر اور اخلاقی روایات سے جڑے افراد کی کمی ہے یا پورا سیاسی نظام بانجھ پن کا شکار ہے ۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اچھی تربیت سے جڑے اہل سیاست کو اس موجودہ فرسودہ او رغیر مہذہب سیاست میں کوئی بڑ ی پزیرائی نہیں دی جارہی ۔ میڈیا کو بھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سنجیدگی کے مقابلے میں ریٹنگ کی دوڑ میں ان کی مد دکرسکیں ۔ لیکن سارا قصور میڈیا پر ڈالنا بھی درست نہیں ۔کیونکہ بڑی ذمے داری تو اہل سیاست کی بنتی ہے کہ وہ اپنے عمل سے عام آدمی سمیت اپنے سیاسی کارکنوں میں بھی ایک رول ماڈل کے طور پر خود کو بھی اوراپنی جماعت کو بھی پیش کرسکیں ۔
سب سے بڑی ذمے داری سیاسی قیادت کی ہوتی ہے کیونکہ جب تک وہ اپنی سیاست سے جڑے افراد کے درمیان نظم و ضبط، اخلاقی سیاسی کلچراو رایک دوسرے کے بارے میں سیاسی نظریات سے ہٹ کر باہمی احترام کا رشتہ قائم کرنے پر خود کو بھی اور اپنی جماعت کے لوگوں پر بھی دباو نہیں ڈالے گا، مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔کیونکہ بعض اوقات یہ سب کچھ جو کھیل منفی انداز میں پیش ہورہا ہے اس کو کسی نہ کسی شکل میں قیادت کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ایک زمانے میں سیاسی کارکنوں کی سیاسی تربیت کا انتظام سیاسی جماعتوں میں موجود ہوتا تھا لیکن اب یہ عمل سیاسی جماعتوں میں بہت پیچھے یا جمود کا شکار ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں اب حزب اختلاف کی سیاست کے ساتھ ساتھ حزب اقتدار کی سیاست میں بھی تنقید اورکردار کشی پر مبنی سیاست کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
یہ جو ہماری سیاست میں پرتشدد رجحانات ، انتہا پسندی اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا کلچر عام ہورہا ہے اس کی وجہ بھی اہل سیاست کا اپنا کمزور پہلو ہے ۔ہمیں واقعی اس وقت اپنے سیاسی نظا م، سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں یا اصلاحات کی عملی ضرورت ہے کیونکہ جب تک سیاست کا داخلی کلچر مثبت انداز میں مضبوط نہیں ہوگا تو خارجی محاذ پر بھی ہماری سیاسی تصویر یوں ہی ہی بدنمائی کا پہلو پیش کرتی رہے گی ۔
اگر ہم نے واقعی ملک میں سیاست او رجمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو یہ عمل سیاست میں اخلاقی پہلو کے بغیر ممکن نہیں او ریہ ہی ہماری جدوجہد کا حصہ بھی ہونا چاہیے ۔اس میں ایک بڑا کردار اہل دانش اور رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد و اداروں کا بنتا ہے ۔ کیونکہ جب تک وہ ایک بڑے دباو کی سیاست حکومت او حزب اقتدار پر نہیں ڈالیں گے تو کچھ تبدیل نہیں ہوسکے گا۔ اسی طرح میڈیا کی سطح پر بھی ایسے لوگ جو ریٹنگ کو بنیاد بنا کر منفی کھیل پیش کررہے ہیں ان کو بھی جوابدہ بنانا ہوگا۔
اس میں ایک بڑا کردار ہمارے تعلیمی نظام او راس سے جڑے نصاب کا بھی ہے ۔ کیونکہ یہ جو کچھ ہم سیاست میں دیکھ رہے ہیں اس میں بڑا فریق پڑھا لکھا طبقہ ہی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری تعلیم میں تربیت کا عمل بہت پیچھے رہ گیا ہے او را س کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نئی نسل سے جڑے لوگ بھی سوشل میڈیا پر اسی روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں جو اہل سیاست نے اختیار کیا ہوا ہے ۔اہل سیاست میں بھی ایسے لوگ جو موجودہ صورتحال میں اس منفی سیاست سے باغی ہیں ان کو بھی خود اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا او رمشترکہ طور پر اپنی اپنی جماعتوں اور قیادتوں کے سامنے یہ سوال اٹھانا ہوگا کہ ہمیں ایسے لوگوں کے خلاف عملی اقدام لینے ہونگے جو بڑا سیاسی بوجھ بن گئے ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان حکومت میں ہوتے ہوئے اس کام کا آغاز اپنے اندر سے کریں اور وہ وزراء جو ان کی حکومت کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں کے خلاف کارروائی کرکے اچھی مثال قائم کریں ۔ یہ مسئلہ محض تحریک انصاف کا ہی نہیں بلکہ ہمیں دیگر بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں میں بھی یہ ہی منفی طرز کی سیاست کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ کاش ہماری سیاسی قیادتیں اور سیاسی جماعتیں مل کر ایک ایسا کوڈ آف کنڈکٹ تیار کرکے اتفاق رائے پیدا کریں جو سب کے لیے مہذب بھی ہو اور قابل قبول بھی تو یہ عمل سیاست اور جمہوریت کے مفاد میں ہوگا۔ وگرنہ دوسری صورت میں پہلے سے کمزور سیاسی اور جمہوری مقدمہ عام لوگوں میں اور زیادہ منفی تاثر پیدا کرکے سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔
The post کیا سیاسی کلچر کی تبدیلی ممکن ہوسکے گی ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/377CI2p
0 comments:
Post a Comment