Ads

ایک اور کوچ…

تیرہ جنوری کی سرد اور گیلی دوپہرکے گیلے پن میں کچھ ہمارے آنسوؤں کی نمی بھی تھی، پچھلی رات سے مسلسل بارش ہو رہی تھی اور ٹھنڈی ہوا ہڈیوں کو چیرتی تھی۔ بارہ جنوری کی رات کومیری ساس امی کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور انھیں ایمرجنسی میں، سی ایم ایچ راولپنڈی لے کر گئے اور رات بھرہسپتال میں ان کے مختلف ٹیسٹ وغیرہ ہوئے اور انھیں آئی سی یو میں داخل کر لیا گیا۔ اگلی دوپہر وہ اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں ۔ ان کی وفات اورمیری والدہ کی وفات میں چار ماہ اور بیس دن کا وقفہ آیا ہے۔

وہ چند سالوں سے علالت کے باعث بستر پرتھیں ، اگرچہ انھیں کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہ تھی مگر اب وہ کافی نحیف ہو گئی تھیں۔ کچھ کھانے سے اور اب پینے سے بھی قاصر ہو گئی تھیں ، کچھ بولتی نہ تھیں سو اپنے دل کی بات بھی نہ بتا سکتی تھیں ، مگر ہمیں یقین تھا کہ وہ بولیں یا نہ بولیں، وہ ہمیں دیکھیں یا نہ دیکھیں ، ان کے ہاتھ اٹھیں یا نہ اٹھیں… مگر ان کا دل اپنی تمام اولادوں کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہتا تھا۔ نہ صرف اولادوں کے لیے بلکہ وہ اپنے سب پیاروں کے لیے دعاؤں کا وہ خزینہ تھیں ۔ اللہ تعالی ہمیں جو بھی عطا کرتا ہے، وہ ہمارا نصیب تو ہوتا ہے مگر اس میں اہم ترین حصہ ہمارے والدین کی، اپنی اولاد کے لیے دعاؤں کا ہوتا ہے۔

اپنی عمر کا بیشتر حصہ میں نے ان کے ساتھ گزارا ہے اور مجھے اپنی زندگی میں ایک نمایاں خلا محسوس ہو رہا ہے۔ وہ خود تعلیم یافتہ نہیں تھیں مگر بڑے بڑے تعلیم یافتہ سے بڑھ کر سمجھ اور فراست کی بات کرتی تھیں ۔ میںنے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، وہ تربیت کا ایک منبع تھیں۔ ہمارے خاندان اور گاؤں کی تاریخ کا ایک طویل دور اختتام پذیر ہوا ۔ وہ محبت اور شفقت کا سر چشمہ تھیں، ان کی شفقت سے محروم ہونے والوں کی تعداد ہماری توقع اور ہمارے علم سے بہت زیادہ ہے ۔ ان کی محبت نے ہر چھوٹے بڑے کواپنے حصار میں جکڑے رکھا اور جس وقت ان کی میت گاؤں میں پہنچی تو ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار تھا۔ اپنے گھر میں علم ہی نہیں ہوتا کہ ایسے محبت کرنے والے لوگ اپنی روشنی کو اپنے گھر سے باہر کہاں کہاں تک پھیلا ئے ہوئے ہوتے ہیں ۔

یکے بعد دیگرے، ہم اپنے حق میںدعائیں کرنے والے ان ہاتھوں سے محروم ہو گئے ہیں کہ جو ہاتھ سر پر ٹکتے تھے تو لگتا تھا کہ ابھی ہم بچے ہیں۔ کوئی ہمیں بیٹا کہتا ہے تو لگتا ہے کہ ہم سے بڑا کوئی ہے جو ہمیں مشکل میں تنہا نہیں چھوڑے گا، ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں پر ڈانٹنے والا کوئی ہے اور ذمے داریاں بٹانے والے بھی موجود ہیں ۔ مگر اس شام کو مجھے لگا کہ میں نے ایک ہی دن میں اپنی عمر کے کئی سالوں کو پھلانگ دیا ہے اور میں اس مقام پر پہنچ گئی ہوں جہاں وہ بوجھ اٹھانا ہیں جو کہ اس سے قبل میری دو ماؤں نے اٹھا رکھے تھے۔

اب ہم دونوں میاں بیوی، یتیم و یسیر ہوگئے ہیں اور ہم دونوں کی ماؤں کا اتنے کم وقفے سے چلے جانا، ہمارا ناقابل ازالہ دکھ ہے۔ان دکھوں میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے ، جب آپ کو اپنے ارد گرد لوگوں کے اصل رنگ اس وقت نظر آتے ہیں جب گریہ کے بعد، آنسوؤں کی دھند چھٹتی ہے ، آپ کی آنکھیں صاف ہو جاتی ہیں اور آپ کو ارد گرد واضح نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ میں نے اپنی قریبی اورپیاری ہستیوں کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جانا ہے کہ موت کا اصل دکھ صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کے گھر اور زندگیوں میں ایک اہم وجود کی کمی واقع ہوتی ہے ۔

ماؤں جیسی ہستی اور کون ہو سکتی ہے، اولاد سے اتنا بے لوث پیار اور قربانی کے جذبے سے سرشار۔ میںنے ان دونوں مواقع پر لوگوں کی بے حسی کے انداز بھی دیکھے ہیں اور خود غرضی کے بھی ، کوئی اتنا غافل کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے کسی کی میت کے پاس بیٹھے ہوئے بھی یاد نہ آئے کہ ایک دن اس تابوت میں ہم میں سے کسی کو بھی ہونا ہے ۔لوگوں کو ان سب باتوں کی فکر ہوتی ہے کہ مرنیوالے نے ترکے میں کیا کیاچھوڑا ہے اور وہ سب کس کو ملے گا، انھیں چاہے اس میں سے کچھ بھی نہ ملنا ہو۔ انھیں یہ بھی جاننا ہوتا ہے کہ ’’ اچانک ‘‘ وفات کیسے ہو گئی، اس وفات میں سے بھی وہ کوئی چٹخارے دار سبب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

قدرتی موت کو بھی حادثاتی موت کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ دلچسپی کا عنصر برقرار رہے ، لواحقین سے کرید کرید کر سوالات کیے جاتے ہیں، ہر شخص کو بیماری سے لے کر وفات تک کی طویل داستان سننا ہوتی ہے ۔ دنیا سے اپنے کسی پیارے کا رخصت ہونا ایک نقصان ہے اور اس کے بعد ان رسومات کو پورا کرنا ہے جو بالکل بے معانی اور بے کار ہیں ، نہ ان رسوم و رواج کا کوئی مقصد ہے نہ اجر۔ لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے اور انھیں خوش رکھنے کی کوشش میں اولادیں اور لواحقین اس اصل ذمے داری کو بھول جاتے ہیں جو کہ ان پر اللہ تعالی کی طرف سے عائد کی گئی ہیں۔

پہلے دن کیا پکے گا، دوسرے دن کیا ۔ تیجا، پانچواں، دسواں ، چالیسواں اور جمعراتیں ، ہندوؤں کے ساتھ رہ رہ کر ہم نے ان کی پیروی میں نہ صرف شادیوں بلکہ مرنے کی رسومات بھی اپنا کر زندگیوں میں مشکلات میں اضافہ کر لیا ہے۔ غریب آدمی تو ان رسومات اور دنیا کی باتوں کے ڈر سے پستا ہی ہے مگر جو صاحب حیثیت ہیں ، ان سے بھی ان کی حیثیت سے بڑھ کر توقعات وابستہ ہوتی ہیں ۔ دنیا کیا کہے گی، ناک کس طرح اونچی رہے گی، عزت کس سے بنے گی اور تو اور مرنے والے کی روح کس طرح خوش ہو گی۔

بہت سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مرنے والے کی روح کی سکون کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ ختم قرآن اور دعا کے لیے اکٹھے ہونے والے لوگ، ان دو چیزوں کے علاوہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں پڑھنے کے لیے کچھ پکڑائیں تو وہ سہولت سے کہہ دیتے ہیں، کہ وہ زبانی تسبیح پڑھ رہے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ گھر سے پڑھ کر آئے ہیں ۔ اگر گھر پر کچھ پڑھ لیا تھا تو بھی اس اجتماعی دعا میں شرکت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔

مرگ کے بعد کی رسومات میں، جمع ہونے والے لوگ، اپنے اپنے کاروبار بڑھا رہے ہوتے ہیں، پرانے رابطے گہرے کیے جاتے ہیں اور نئے رابطے بنتے ہیں ۔ رشتے ڈھونڈے جا رہے ہوتے ہیں، لڑکوں کی مائیں ’’ تاڑا ‘‘ لگا کر بغیر میک اپ کی لڑکیاں جانچ رہی ہوتی ہیں۔ دوسروں کے پہناوؤں پرمثبت و منفی تبصرے ہوتے ہیں، جو موجود ہیں، ان کی چاپلوسی اور غیر موجود کی غیبت۔ صحن میں پڑی ہوئی میت بھی انھیں اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے کہ ایک دن ہمیں اس دنیا سے جانا اور اپنے خالق حقیقی کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ غیبت کرنا، اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہوتا ہے۔

بد قسمتی یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ غیر ضروری بلکہ فضول کی رسومات ہیں ، مجبوری یہ کہ ہم پھر بھی یہ سب کرتے ہیں۔ نہ کریں تو باہر کے لوگ تو بعد میں کہیں گے، وہ احباب اور رشتہ دار جنھیں اصل میں اس مشکل وقت میں آپ کی دل جوئی کرنا چاہیے، وہ بھی آپ سے اسی بات پر اصرار کررہے ہوتے ہیں کہ دنیا داری کے تقاضے اہم ہیں اور جانے والے کی عزت کی وجہ سے یہ سب کچھ کرنا لازم ہے ۔ والدین کی شفقت ہو یا کسی اور پیارے کی محبت، اس سے محروم ہونے سے بڑا کیا دکھ ہو سکتا ہے کہ اس پر مستزاد دکھوں میں اضافہ کرنے والی باتیں، غیر ضروری اخراجات اور بے معنی رسومات ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق۔

اللھمہ اغفر لھا و ارحمھا و عافھا واعف عنھا واکرم نزلھا ووسع مدخلھا و اغسلھا بالما ٔ والثلج والبرد ونقھا من الخطایا کما نقیت الثوب الابیض من الدنس و ابدلھا دارا خیرا من دارھا و اھلا خیرا من اھلھا و زوجا خیرا من زوجھا و ادخلھا الجنۃ و اعذھا من عذاب القبر ومن عذاب النار۔

ترجمہ۔ اے اللہ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اسے معاف کر دے اور اس کی بہترین مہمانی فرما اور اس کے داخلے کی جگہ ( قبر) کو کشادہ فرما اور اسے پانی، اولوں اور برف سے دھو دے اور اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے کہ تو سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کرتا ہے اور اسے اس کے گھر سے بہتر گھر عطا فرما اور اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے اور اس کے زوج سے بہتر زوج عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور اسے عذاب قبر اور آگ کے عذاب سے بچا لے۔ ( آمین)

آپ سب سے التماس ہے کہ میری ساس امی کی مغفرت کے لیے ایک بار یہ دعا پڑھ کر، دل سے ان کے لیے دعا کریں ۔ جزاک اللہ!!

The post ایک اور کوچ… appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2G5Lqm9
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment