Ads

چشموں کی دکانیں بند ہونے سے کمزور نظر شہری پریشانی سے دوچار

کراچی: کراچی سمیت سندھ بھر میں لاک ڈاؤن کے سبب چشمہ سازی کی دکانیں بند ہونے کے سبب لاتعداد شہری شدید پریشانی سے دوچار ہیں، نظر کے چشمے ٹوٹ جانے کی وجہ سے ان کی مرمت کرنے یا نئی عینک بنانے والا کوئی نہیں ہے، چشمے ٹوٹ جانے کے سبب شہریوں کو روزہ مرہ زندگی کے کام کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے،کراچی میں بھی اکثریت مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد سمیت پڑھائی،کمپیوٹر سمیت دیگر کاموں کے لیے شہری چشمے کا استعمال کرتے ہیں۔

ڈاکٹرز اور طبی عملے کی اکثریت بھی چشمے کا استعمال کرتی ہے اور اس وقت ملک میں کوررونا کی صورتحال کی وبا سے نمٹنے کے لیے فرنٹ لائن کا کردار اداکررہے ہیں،کئی ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف سمیت کورونا کی وبا کے خاتمے کے لیے کام کرنے والوں کے نظر کے چشمے بھی کئی واقعات میں ٹوٹ چکے ہیں جس کی وجہ سے ان کو بھی اپنے شعبوں میں کام کرنے میں دشواری کا سامنا ہے ، مقامی چشمہ ساز ایاز خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ کراچی میں اس وقت چشمہ سازی کی 3 سے 4 ہزار دکانیں ہیں اس شعبے سے تقریبا 20 سے 25 ہزار افراد وابستہ ہیں  عام دنوں میں ایک دکان سے اوسط30 سے40 نظر کے مختلف نمبرز کے لحاظ سے قریب اور دور کے چشمے بنائے جاتے ہیں یہ چشمے مختلف قیمتوں کے ہوتے ہیں، 4 سال  کے بچے سے لے کر بزرگ افراد جن میں ہر عمر کے بچے،نوجوان،مرد اور خواتین سمیت تمام شعبوں سے وابستہ افراد نظر کے چشموں کا استعمال کرتے ہیں اس وقت ملک میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہاہے۔

اس کا کوئی علاج نہیں ہے اس وبائی جنگ کے فرنٹ مین سپاہی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہیں ان کی اکثریت نظر کے چشموں کا استعمال کرتی ہے،لاک ڈاؤن کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ بھر میں چشمہ سازی کی دکانیں بند ہیں ہم بھی قانون کی پاسداری کرتے ہیں لیکن لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھ جانے کی وجہ سے اب صورتحال خراب ہورہی ہے روزانہ کی بنیاد پر ہمیں کالز موصول ہورہی ہیں کہ ہمارا چشمہ ٹوٹ گیا ہے مہربانی کرکے اس کو بنوادیں لیکن ہم یہ ہی جواب دیتے ہیں کہ دکان بند ہے ایاز خان نے بتایا کہ ہم اپنے کاروبار کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کی مشکلات کی وجہ سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے مودبانہ درخواست کرتے ہیں کہ کچھ گھنٹوں کے لیے چشمہ سازی کی دکانیں کھولنے کی اجازت دی جائے۔ ہم کورونا کے ایس اوپیز کے مطابق عوام کے ٹوٹے ہوئے نظر کے چشموں کی مرمت یا نئے عینک بناکردیں گے۔

دکانیں بندہونے سے50لاکھ چشمے پہننے والے پریشان ہیں

چیئرمین ٹریڈرز ایسوسی ایشن میریٹ روڈ محمد احمد شمسی نے کہا ہے کہ ہم وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ  سے گزارش کرتے ہیں کہ چشمہ سازی کا شعبہ بھی دیگر مارکیٹوں کے ساتھ کراچی میں لاک ڈاؤن کے باعث بند ہے جس کے باعث چشمے استمال کرنیوالوں کی بڑی تعداد کم و بیش50 لاکھ افراد جو چشمے کا استعمال کرتے ہیں شد  ید پریشانی کا شکار ہیں ان میں طالب علم بوڑھے بچے خواتین سب شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ چشمہ سامان تعیش میں نہیں بلکہ زندگی کی بنیادی ضرورت میں آتا ہے اور اس کا تعلق شعبہ طب سے ہے حکومت سندھ نے جس طرح میڈیکل اسٹور اور ضرورت زندگی کی لازمی اشیاکو لاک ڈاون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس طرح چشمہ سازی کی دکانوں کو محدود اوقات میں حفاظتی اقدامات (ماسک گلوز۔ سینیٹازر۔ اور سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ) کام کرنے کی اجازت دی جائے اور چشمہ کا استمال کرنے والے لاکھوں لوگوں کو پریشانی سے نجات دلائی جائے۔ہم تمام حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب بھی چشمہ سازی کو میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ قرار دے کر کھولنے کی اجازت دے چکی ہے۔

گاڑی چلانے والوں کو چشمہ نہ ملنے سے ڈرائیونگ مشکل ہوگئی

شہریوں کی بڑی تعداد اپنے امور کی انجام دہی کے لیے اپنی ذاتی سواریوں موٹرسائیکل اور گاڑیوں کے استعمال کرتے ہیں۔چشمہ سازایاز خان کے مطابق ان میں اکثریت دور اور قریب کے الگ الگ  یا مشترکہ نظر کے شیشے یا پلاسٹک والے چشمے استعمال کرتے ہیں۔تاکہ کسی حادثہ سے بچاجاسکے ان میں سے کئی افراد کو چشمے ٹوٹ جانے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

نظر کے چشمے لگانے والےطلبہ کی تعلیم متاثر ہونے لگی

لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے بچے اور نوجوان گھروں پر ہیں مختلف تعلیمی اداروں کی جانب سے آن لائن تدریس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، چشمہ ساز ایاز خان نے بتایا کہ یہ آن لائن کورسز سے استفادہ طالب علم کمپیوٹرز یا موبائل کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں اس کے علاوہ نوجوانوں اور بچوں کے گھروں میں رہنے کی وجہ سے انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا اور گیمز کا استعمال بڑھ گیا ہے ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سمیت بچوں کی اکثریت بھی نظر کے چشمے میں استعمال کرتے ہیں۔

سماجی شخصیات قریب اوردورکے چشمے استعمال کرتی ہیں

سیاسی،مذہبی اور سماجی شخصیات کی بڑی تعداد بھی دور اور قریب کی نظر کے چشمے استعمال کرتے ہیں، ایاز خان کے مطابق اعلی حکومتی شخصیات اور بیورکریٹ سمیت اہم اداروں کے افسران اور سماجی کاموں میں مصروف افراد میں بھی نظر کے چشموں کا استعمال عام ہے،چشمے کی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے ان افراد کو نئے چشموں یا مرمت کے لیے چشمے کا حصول نا ممکن ہوگیا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے مرد وخواتین سمیت کاروباری کی بڑی تعداد بھی گھروں پر ہیں۔

چشمہ سازایاز خان کے مطابق یہ مرد وخواتین بھی آن لائن اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی کاروباری اور دفتری سرگرمیاں معمول کے مطابق انجام دے رہے ہیں، ان افراد کی بڑی تعداد نظر کے چشموں کا استعمال کرتی ہے، نظر کے چشمے انسانی زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔

گھریلواورملازمت پیشہ خواتین بھی چشمے مرمت نہ ہونے پر پریشان

گھریلو خواتین کو بھی اپنے کام کے لیے چشمے استعال کرنے پڑتے ہیں۔یہ گھریلو خواتین کھانا پکانے کے علاوہ سلائی اور دیگر گھریلو کام کرتی ہیں، چشمہ ساز ایاز خان نے بتایا کہ بچے اور شوہر گھر پر ہونے کی وجہ سے ان کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے اکثر اوقات ان کے نظر کے چشمے بھی ٹوٹ جاتے ہیں ان کو بھی اپنی روزہ مرہ کے امور کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

بزرگوں کی بڑی تعداد نظر کے چشمےٹوٹنے پر پڑھنے لکھنے سے محروم ہوگئی

لاک ڈاؤن کی وجہ سے مساجد میں باجماعت نماز کی پابندی کی وجہ سے مرد خصوصا بزرگوں کی بھی بڑی تعداد اس وقت گھروں میں رہ کر عبادات میں مشغول ہے شہریوں کی اکثریت گھروں میں قرآن پاک اور دیگر دینی کتابوں کے علاوہ مختلف مضوعات پر کتابیں پڑھتے ہیں ایاز خان کے مطابق ان افراد کی اکثریت قریب کی نظرکے لیے مختلف نمبرز کے چشمے استعمال کرتے ہیں شہریوں کی اکثریت کی لاپرواہی کی بنا  پر چشمے ٹوٹ گئے ہیں اب ان کو چشموں کی مرمت یا نئے کے حصول میں شدید پر یشانی کا سامنا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چشمے کی دکانیں بند ہیں۔

The post چشموں کی دکانیں بند ہونے سے کمزور نظر شہری پریشانی سے دوچار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yYN1Ke
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment