Ads

’لاک ڈاؤن‘ ہے کہ نہیں ہے۔۔۔؟

’کورونا‘ کی وبا کے دوران ’لاک ڈاؤن‘ کی اصطلاح عام ہوئی۔ ’لاک ڈاؤن‘ عوام پر گھروں میں رہنے کی ایک سرکاری پابندی کی صورت میں عائد ہوا۔ خلقِ خدا نے عرف عام میں اس کے معنی اپنے طور پر ’ہڑتال‘ یا کرفیو وغیرہ کی ایک شکل میں اخذ کر لیے۔۔۔ یعنی تمام معمولات زندگی بند ہوں اور لوگ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔۔۔ ہڑتال تو عام طور پر دو، ایک دن کی ہوتی تھی، جس کے بعد زندگی پھر سے سانس لینے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتی تھی۔۔۔ گلی محلوں میں تو دن ڈھلتے ہی ہڑتال بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر ختم ہو جاتی تھی۔ کرفیو کے زمانوں میں تو صورت حال ظاہر ہے کسی بھی سبب نزاعی یا ناگفتہ بہ ہوتی اور لوگ کسی شدید خوف یا ڈر کی بنا پر گھروں تک محدود ہونے پر مجبور ہو جاتے، لیکن حالیہ ’لاک ڈاؤن‘ کورونا کی وبا کے پیش نظر حفظ ماتقدم یعنی پیشگی احتیاط کے طور پر عائد کیا گیا ہے، جس کے سبب مختلف علاقوں سے یہ شکایات تواتر سے سامنے آرہی ہیں کہ لوگ گھروں میں بیٹھنے کی پابندی پر عمل نہیں کر رہے۔ شہر کے بڑے بڑے اسٹوروں اور گلی محلوں کے چھوٹے بازاروں میں ضروریات زندگی کی دکانوں پر معمول سے زیادہ رش دیکھنے میں آرہا ہے، جس سے ظاہر ہے لوگوں کے درمیان ’سماجی دوری‘ نہیں رہ پا رہی!

اس کی ایک بڑی وجہ تو ہمارے سماج میں شعور کی کچھ کمی ہے۔ اب بھی ایک بہت بڑی تعداد ’کورونا‘ کے سبب معمولات زندگی کی اس بندش کو دشموں کی سازش قرار دینے پر تلی ہوئی ہے، وہ مستقل ’کورونا‘ سے پیدا ہونے والے حالات کو شبہات کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے، لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ بالفرض اگر یہ وبا سازش وغیرہ بھی ہے، تو اب اس کا تدارک لاک ڈاؤن کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔۔۔؟ کیوں کہ یہ مہلک لاعلاج بیماری تو ایک فرد سے دوسرے کو چھونے یا قریب ہونے سے لگ سکتی ہے، اس لیے یہ لاک ڈاؤن کیا گیا ہے، تاکہ متاثرہ افراد سے یہ مرض دوسروں کو نہ لگ سکے۔

مجموعی طور پر ہمارے سماج میں مذہب کے حوالے سے کافی جذباتی فکر پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے مساجد میں باجماعت نماز محدود کی، تو اِسے بھی بہت سے حلقوں نے ’غیر ضروری‘ کہا اور ناپسند کیا۔ اس حوالے سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ بازاروں میں رش ہے، یا فلاں جگہ پر بھی تو بھیڑ لگی ہوئی ہے، لیکن مسجدوں پر قدغن ہے۔۔۔! بھئی اگر ہمیں اس  وبا کے مہلک ہونے اور اس کے پھیلنے کے بارے میں کوئی شک ہے، تو پہلے ہمیں چاہیے کہ اس حوالے سے کھل کر اور مدلل بات کرلیں اور اگر نہیں تو پھر خود بتائیں کہ اگر ایسا ہے، تو عقل مندی کا تقاضا کیا ہے۔۔۔؟ یہ کہ بازاروں میں اگر اس ’سماجی فاصلے‘ کی احتیاط نہیں ہو رہی، تو اسے روکنے کے لیے زور دیا جائے؟ یا پھر یہ کہ اس خلاف ورزی کی بنیاد پر مزید خلاف ورزیوں کے لیے ایک دلیل بنا دی جائے۔۔۔؟

دوسری طرف اس امر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ’کورونا‘ کے حوالے سے یہ یقیناً ایک مشکل صورت حال ہے۔ دنیا بھر کی طرح ہماری حکومت نے بھی اس وبا سے نمٹنے کے لیے ’لاک ڈاؤن‘ کا احتیاطی قدم اٹھایا ہے، تو اس کے ساتھ ضروری تھا کہ وہ اپنے ساتھ مختلف الخیال سیاسی و مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سمیت رائے سازی کے حوالے سے معتبر سمجھے جانے والی تمام شخصیات کی اعلانیہ حمایت بھی حاصل کرتے، تاکہ ہمارے سماج کا ہر طبقہ اس حوالے سے روزِ اول سے ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا اور وہ جس کسی بھی راہ نما یا شخصیت کا حامی، مداح، پرستار یا پیروکارہے، اس کی آواز پر لبیک کہتا۔

اس کے ساتھ ماضی میں جنگوں کے دوران ’بلیک آؤٹ‘ یا ’کرفیو‘ وغیرہ جیسی کسی بھی صورت حال کے لیے گلی محلے کی سطح پر مدد حاصل کی جاتی رہی ہے،کیوں کہ حکومتی عمل داری بڑی شاہ راہوں اور سڑکوں پر بہ آسانی ہو سکتی ہے، لیکن چھوٹے محلوں اور ان کے اندر گلی کوچوں تک اس بھرپور طریقے سے ہونا اتنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس مقصد کے لیے ’محلہ کمیٹیاں‘ یا ہر علاقے کے کچھ معززین اپنے رضا کاروں کے ذریعے نہ صرف حکومتی احکامات کی پابندی کراتے تھے، بلکہ اپنے علاقے کے لوگوں کو اس بات کا قائل بھی کرتے کہ وہ مسئلے کی نزاکت کو دل سے تسلیم کریں اور اس حوالے سے دی گئی تمام ہدایات  پر عمل کریں۔

اس بار ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سرکاری اہل کاروں کو براہ راست لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے پولیس، رینجرز کے بعد اب فوج کی مدد بھی حاصل کرلی ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اگر مجموعی طور پر عوام ہی پابندی پر عمل نہ کریں، تو یہ سب اہل کار مل کر بھی لوگوں کو کتنا اور کب تک مجبور کر سکتے ہیں۔۔۔؟ جب تک کہ لوگ خود سے ہی یہ بات نہ سمجھیں کہ یہ مشکل اور کٹھن فیصلہ ان کے تحفظ کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ مانا کہ اس میں ہمارے لیے شدید ترین معاشی دشواریاں بھی چھپی ہوئی ہیں، لیکن جان ہے تو جہان ہے۔۔۔ کورونا کے حوالے سے اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ خدانخواستہ اگر یہ وبا زیادہ پھیل گئی تو ہمارے ناکافی طبی وسائل سب کے سامنے ہیں، اس وقت امریکا اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اس حوالے سے ایک بڑے بحران کا شکار ہیں، تو ہمارا شمار تو ویسے بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔

شہروں کے درمیان آمدورفت معطل ہونے کے سبب گذشتہ دنوں ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ بہت سے مسافر مختلف شہروں سے مال گاڑیوں اور مال بردار گاڑیوں کو دوسرے شہروں میں سفر کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس امر پر بھی فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہو رہا ہے تو یقیناً ہم کتنا ہی طویل ’لاک ڈاؤن‘ کیوں کہ کرلیں، مگر اس کا فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں گے، نقصان البتہ ضرور بڑھتا رہے گا۔

لوگوں کو یہ بات سمجھائی جائے کہ حکومتی لاک ڈاؤن کے اعلان سے سارے چھوٹے بڑے کام کاج بند ہیں، جس سے بلا شبہ لوگوں اور ملکی معیشت کو بھی بہت نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ عوام کی جانب سے اس لاک ڈاؤن کی پاس داری نہ کرنے کی صورت میں یہ وبا دیر سے قابو میں آئے گی یا خدانخواستہ بے قابو ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کسی نہ کسی صورت میں زیادہ طویل عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔

اس لیے اندازہ لگائیے کہ ’لاک ڈاؤن‘ پر عمل نہ ہونا اجتماعی طور پر ہم سب کے لیے کس قدر پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے! یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب ’لاک ڈاؤن‘ پر بہت سختی سے عمل کریں اور اس دوران گھروں سے بالکل بھی باہر نہ نکلیں، نہ ہی کسی محفل میں شریک ہوں، نہ کسی بھی سطح پر لوگوں سے میل جول رکھیں۔ یہ کچھ دنوں کی بات ہے، آج تو رابطے کے لیے جدید ذرایع بھی موجود ہیں، کچھ دن فقط انہی پر انحصار کرلیں۔ امید ہے چین اور نیوزی لینڈ کی طرح جلد ہی ہمارا ملک اور پوری دنیا اس بڑی مشکل سے نجات پا لے گی، پھر ان شاء اللہ ہم سب اپنی زندگی کی مصروفیات میں دوبارہ مصروف ہو جائیں گے، نہ مصافحے پر پابندی رہے گی اور نہ میل ملاقات پر۔

’امداد‘ حقیقی مستحقین تک پہنچنا ضروری ہے!

’ایکسپریس نیوز‘ کراچی کے بیوروچیف فیصل حسین کے بقول اِن دنوں حالات ایسے ہیں کہ تین نسلوں کی پونجی ایک ماہ میں چٹ ہو چکی ہے۔۔۔ بلاشبہ ’کورونا‘ پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے ’لاک ڈاؤن‘ کے سبب سماج کے نچلے طبقے کا شدید مشکل وقت شروع ہو چکا ہے، اس کی سفید پوشی اور کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کا بھرم بری طرح ٹوٹ رہا ہے۔۔۔ ہم اس وقت اُن کی بے بسی کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ خوددار لوگ اس وقت کس کرب اور اذیت سے دوچار ہیں۔۔۔ وہ اس معطل زندگی میں بھی ہاتھ جوڑ جوڑ کر رو رہے ہیں کہ بس ہمیں اپنا رکشا سڑک پر لانے دو، ہم خود کسی طرح اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر لیں گے۔۔۔! ایسے میں بہت بڑے پیمانے پر لوگ ان مشکلات کے شکار لوگوں میں ضروریات زندگی کا سامان پہنچا رہے ہیں۔۔۔ وہ ضرورت مند جو روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔

شاید فاقے کر رہے ہیں، وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ کسی طرح اُن کی سفید پوشی کا بھرم رہ جائے۔۔۔ ہر چند کہ مشکل وقت ہے، اور سب ہی جانتے ہیں کہ بغیر کام کیے تو کوئی بھی زندگی کی گاڑی آگے نہیں دھکیل سکتا، لیکن ان کی خودداری آڑے آتی ہے، وہ کسی کو نہیں بتا پا رہے۔۔۔ جب کہ زیادہ تر راشن کی تقسیم میں مبینہ طور پر بہت سے پیشہ ور لوگ اور گداگر قطاروں میں لگے ہوئے ہیں اور مستحق افراد کا حق مار رہے ہیں۔ ایک صوبائی وزیر بھی یہ شکایت کر چکے اور کچھ دیگر افراد بھی اس کی نشان دہی کر رہے ہیں کہ کچھ  مخصوص افراد ہی بار بار مختلف تنظیموں سے راشن اکٹھا کر رہے ہیں۔۔۔ دوسری طرف اصل مستحق گھر میں زندگی کی دُہری اذیت سہہ رہا ہے، اس سمت بہت بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ خدانخواستہ کوئی المیہ جنم لے سکتا ہے!

گھروں میں رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل کیا ہے۔۔۔؟

ایسی صورت حال میں کہ جب گھروں سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے اور گھر میں رہتے ہوئے زندگی کی گاڑی دشواریوں میں پھنس رہی ہے۔ ایسے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسی فیکٹریاں اور کارخانے فوری طور پر اپنے کاری گروں اور ’کارکنوں‘ کے لیے ایسے کام جو وہ گھر میں کسی آلے، مشین یا ہاتھ سے کر سکتے ہوں، اس کی سہولت دینا شروع کر دیں۔۔۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ فیکٹریوں کے بہت سارے کام گھروں پر کیے جانے ممکن بھی نہیں، لیکن بہت سے کاموں کے لیے گھروں پر بندوبست کیا بھی تو جا سکتا ہے۔ اس سے سفید پوش لوگوں کے کچھ نہ کچھ آنسو پونچھ سکیں گے، دوسری طرف تھوڑا بہت ہی سہی ہمارے ملک کی معاشی صورت حال پر بھی بہتر اثر پڑے گا۔

’جیسے ’روزہ‘ بھی نہیں رکھ رہے اور کھا پی بھی نہیں رہے!‘

’لاک ڈاؤن‘ کی پابندی کے حوالے سے عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معمولات زندگی کی بندش پر عمل نہ کرنا ایسا ہے کہ جیسے آپ کو روزے رکھنے ہیں اور آپ سارا دن کھا پی بھی نہیں پا رہے، مگر روزہ بھی نہیں رکھ رہے۔۔۔! کیوں کہ آپ نے روزہ رکھنا ہے تو پھر اس کا مکمل اہتمام اور ساری جملہ احتیاطیں بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑیں گی، تبھی تو آپ کا روزہ ہوگا ناں۔۔۔! بالکل ایسے ہی ’لاک ڈاؤن‘ کا بھی معاملہ ہے، لاک ڈاؤن کا مقصد تب ہی حاصل ہوگا، جب حقیقی معنوں میں ہم سب اجتماعی طور پر اپنے آپ کو بالکل محدود کریں گے، ورنہ یہی صورت حال ہوگی کہ ہم روزے کے دنوں میں سارے دن بھوک پیاس بھی برداشت کر رہے ہیں، لیکن روزہ نہیں رکھ رہے۔ ہمیں اپنے روزے رکھنے کے لیے پھر دوبارہ سے ہی ساری محنت کرنا پڑے گی۔ اس لیے اس معاملے کی حساسیت کو سمجھ لیں اور اپنے آپ کو محدود کریں، تاکہ ’کورونا‘ جیسی وبا کے خاتمے کے بعد جلد از جلد زندگی کی سرگرمیاں بحال ہو سکیں۔

 گھر بیٹھ کے کوئی کب تک کھا سکتا ہے۔۔۔؟

کہتے ہیں کہ ’کھاتے کھاتے تو کنواں بھی خالی ہو جاتا ہے۔۔۔!‘ ہمارے سماج کے وہ محنت کش جن کی آمدن کا انحصار روزانہ کے کام پر ہوتا ہے، ان کے لیے مسائل سب سے پہلے کھڑے ہوئے، لیکن اب دھیرے دھیرے یہ شکنجہ اس سے اوپر کی جانب بڑھ رہا ہے اور اب تنخواہ دار طبقے کے لیے مشکلات پیدا ہونے لگی ہیں۔۔۔ ملازمت سے بے دخلی کے خدشات سچ ثابت ہونے لگے ہیں، مختلف کارخانوں اور فیکٹریوں سے ملازمین کو نکالے جانے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔۔۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے سماج کی اکثریت کی آمدن کا انحصار روزانہ کے کام یا ملازمت پر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔۔۔ اب اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہماری معاشی صورت حال کس دوراہے پر کھڑی ہو چکی ہے۔

پھر کاروباری طبقہ، صنعت کار اور مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنے والے چھوٹے بڑے ایسے افراد اور ادارے ہیں جن کے کام سے بے شمار لوگوں کے روزگار جڑے ہوئے ہیں، وہ بے شک بہت مال دار ہوں، لیکن وہ بھی کام بند ہونے سے ’خسارے‘ سے دوچار ہو رہے ہیں، ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کب تک اپنے ملازمین کو گھر بٹھا کر تنخواہ دیں گے۔۔۔؟ ہو سکتا ہے کہ ان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس کٹھن وقت میں ملازمین کا خیال کرلیں، برس ہا برس وہ انہی ملازمین کی سخت محنت سے لاکھوں اور کروڑوں کے منافعے بھی تو کما چکے ہیں، آج اس مشکل صورت حال میں وہ بھی کچھ خسارہ برداشت کرلیں، لیکن زمینی حقائق کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے، تو ایسے مستحکم آجران کا تناسب کتنا ہوگا، جو کسی نہ کسی طرح دل پر پتھر رکھ کر یہ سب کر لیں گے۔

باقی ایک بہت بڑی اکثریت چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کی ہے۔ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے، تو وہ شاید گھر بٹھا کر زیادہ دن تنخواہ دینے کے قابل نہیں ہوں۔۔۔! پھر ایک ایسے مرحلے پر جہاں حالات کے اُفق پر غیر یقینی کے بادل بہت گہرے ہوں، ایسے میں ہر فرد اس فکر میں مبتلا ہے کہ جانے کب حالات بہتر ہو سکیں گے اور کب کام شروع ہوگا، اور باقی لوگوں کی طرح ان کی بھی یہ خواہش یا ضرورت ہوگی کہ ان کی جمع پونجی زیادہ سے زیادہ ان کی ضرورت اور ان کے بچوں کے لیے محفوظ رہ سکے۔۔۔ پھر وہی بات آجاتی ہے کہ کھاتے کھاتے تو ایک دن قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جاتا ہے، یعنی مجموعی طور پر ہماری معاشی صورت حال کافی مسائل  کے گرداب میں پھنستی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔

 اب تو ’دفتر‘ سے گھر آتے ہی نہیں۔۔۔!

گھر سے کام کرنا زبان سے کہنا جتنا آسان ہے عملاً کوئی اتنا سازگار نہیں ہے۔ ’گھر کو دفتر بنا دینا‘ ایسی صورت حال میں بجلی اور انٹرنیٹ کی آنکھ مچولی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ وغیرہ کے ’نخرے‘ بھی پریشان کُن ہیں، اور ’لاک ڈاؤن‘ کے دوران سارے کاروبار بند ہیں، آپ کا کی بورڈ خراب ہو جائے یا کمپیوٹر کے اندر کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہو جائے، کمپیوٹر چلنے سے انکار کردے تو آپ کا سارا کام تلپٹ ہو سکتا ہے، ایک لمحے میں آپ کے سارے دن کی محنت اکارت بھی جا سکتی ہے۔

دوسری طرف کہنے کو ’لاک ڈاؤن‘ میں بہت سے دفاتر آن لائن کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ اکثر دفتروں میں کام کرنے والے اپنے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر جمے رہتے ہیں، لیکن جو اب گھر سے کام کر رہے ہیں کیا وہ اب اپنا وقت گھروں کو دے رہے ہیں۔۔۔ ذرا گھروں کا جائزہ لیجیے، تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ دفتر جانا اور آنا ہماری زندگی میں غیر محسوس طریقے سے ایک نظم وضبط تشکیل دیتا ہے، اب آپ نہ چاہتے ہوئے اپنے گھر میں بھی دفتری پیچیدگیوں میں الجھے رہتے ہیں، گویا اہل خانہ کو پہلے تو دفتر سے دیر سے گھر آنے کی شکایت ہوتی تھی، اب دفتر سے نہ آنے کی شکایت ہے کہ دفتر جاتے جو نہیں، یعنی اپنے گھر کو دفتر کر کے، سارا دن بس اسی ’دفتر‘ میں رہتے ہیں۔

۔۔۔

ہے زخم کرونائی
ڈاکٹر ہلال نقوی
اس شہر خرابی میں
مشکل ھے بہت جینا
ہے زخم کرونائی
گھائل ھے بہت سینہ
جینے کے بھی اندازے
مرنے کا بھی تخمینہ
جائیں تو کہاں جائیں
رستہ نہ کوئی زینہ
اے جان جہاں،دل کا دروازہ کھلا رکھنا
پلکوں سے بنا خیمہ
اس خیمے کے گوشے میں
احساس کا گنجینہ
دل جیسا قرنطینہ
خاموشی وتنہا
دھڑکن کے سوا کیا ہے
دھڑکن بھی تری دھڑکن
مرنا تو یہیں مرنا جینا تو یہیں جینا
دل جیسا قرنطینہ
اے جان جہاں، دل کادروازہ کھلا رکھنا

The post ’لاک ڈاؤن‘ ہے کہ نہیں ہے۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34zc6XH
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment