Ads

پاک افغان سرحد سے آمدورفت

 پشاور: اس وقت عالمی وبا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ پنجے گاڑے ہوئی ہے، یوں لگ رہا ہے جیسے اس وبا کے باعث وقت رک سا گیا ہے، تاحال ہزاروں جانیں لقمہ اجل بننے کے ساتھ لاکھوں افراد اس وبا سے متاثر ہیں، جس میں آئے روز بڑی سرعت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جب کہ اس نے انسانی جانوں کو نگلنے کے ساتھ اقتصاد کا بھی بھٹا بٹھا دیا ہے، لیکن فی الوقت اس وبا سے نجات کے لیے گھروں میں رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے، تاکہ جلد ازجلد اس پر قابو پایا جا سکے۔ ایسے میں حکومت پاکستان کی جانب سے بھی لاک ڈاؤن سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں، جن میں فضائی بندش کے ساتھ ہم سائے ممالک سے سرحدوں کی بندش اور کڑی نگرانی بھی شامل ہے۔

اس صورت حال میں لوگوں کو مشکلات کا بھی سامنا ہے جسے ہرصورت ہمیں برداشت کرناپڑے گا،ان مسائل ومشکلات کا سامنا اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی کرنا پڑ رہا ہے، جن میں افغانستان میں پھنسے ہوئے پاکستانی بھی شامل ہیں، جن کو وہاں سے نکالنے کے لیے اقدام کیے جا رہے ہیں، اس سلسلے میں ضلع خیبرکی تحصیل لنڈی کوتل میں کورونا وائرس کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر افغانستان سے آنے والے پاکستانی مسافروں کے لیے چار قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے ہیں، جو 787 بستروں پر شامل ہیں۔

ان مراکز میں وائرس کے مشتبہ مریضوں سمیت افغانستان میں پھنسے ہوئے پاکستان کے ٹرانسپورٹرز اور مسافر جو طورخم سرحد کے راستے وطن آئیں گے، انہیں 14دن کے لیے رکھا جائے گا، جہاں ان کو حکومت کی طرف سے تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

ضلع خیبرکے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شمس الاسلام کاکہناہے کہ ضلعی انتظامیہ باقاعدہ ان قرنطینہ سنٹروں کی مانیٹرنگ کریگی اوریہاں پرتمام ممکنہ سہولیات کی فراہم میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی،دوسری جانب رابطہ کرنے پرضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر محمود اسلم وزیرنے بتایاکہ افغانستان میں موجودپاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے تمام تر انتظامات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔ ان افراد کو چودہ دن تک ان پناہ گاہوں میں رکھنے اور پھر ٹیسٹ کلیئر ہو جانے کے بعدگھروں کو جانے کی اجازت دی جائے گی۔

پاکستان نے حکومت افغانستان کی خصوصی درخواست اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کو واپس جانے کی اجازت دی، اس سلسلے میں طورخم اورچمن کی سرحدی گزرگاہوں کو چھے تا نو اپریل 2020ء افغان شہریوں کی سہولت کے لیے کھول دیا گیا۔ اس دوران صرف طورخم بارڈرسے تقریباً 21 ہزار افغان شہری اپنے وطن لوٹ گئے۔

اس دوران حفاظتی اور احتیاطی اقدام کیے گئے، ایف سی اورمقامی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی، تمام مسافروں کی قدرے فاصلے پر قطار بنا کر پاسپورٹ اور ویزہ انٹری کے بعد چھوڑا جاتا رہا۔ دوسری طرف طورخم بارڈر پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بحال کرتے ہوئے ٹرکوں اور کنٹینرزکو جانے کی اجازت دی گئی،

یہ بھی اطلاعات سامنے آئیں کہ اس دوران جذبہ خیر سگالی کے تحت افغانستان جانے والے سینکڑوں مسافروں کو بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے چھوڑا گیا، اس حوالے سے سرکاری ذرایع نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہم نے جتنے افراد کے لیے انتظامات کیے تھے، اس سے کہیں زیادہ افراد جمع ہوگئے، اس لیے بعض افراد کو بغیرچیکنگ کے ہی چھوڑاگیا،اس موقع پر رش بڑھنے اور بارش کے سبب ضلعی انتظامیہ، سیکیورٹی فورسز اورمقامی افراد نے رات کو سینکڑوں مسافرکی دل کھول کرمہمان نوازی بھی کی، لوگوں نے اپنے ہوٹل کھول کرمفت کھانا فراہم کیاجب کہ انتظامیہ کی جانب سے درجن بھر چاول کی دیگیں بھی پکاکرمسافرمیں بانٹی گئیں، پاک افغان سرحد طورخم میں سینکڑوں افغان مہاجرین کے لیے مساجد اور ہوٹلوں میں قیام وطعام کا بندوبست کیا گیا، مردحضرات کو قومی ٹرمینل اور احاطہ کے مساجد میں جب کہ خواتین اور بچوں کوعلیحدہ تین منزلہ عمارت میں ٹھیرایاگیا ،اسی طرح باچہ مینہ طورخم اور اہالیان خوگہ خیل نے ان مسافروں کے لیے کھانے پینے کابندوبست کیا،

اس سے قبل طورخم بارڈر پرمتعلقہ پاکستانی اور افغانستانی حکام کے درمیان بارڈرکی موجودہ صورت حال پرفلیگ میٹنگ بھی ہوئی، بتایا گیا کہ تجارتی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو جمرود ٹرمینل میں ہیلتھ سرٹیفیکیٹ جاری ہوگا، جو وہ گاڑی کے اگلے شیشے پر لگائیں گے، اسی طرح پاکستان کی گاڑیاں افغانستان داخل ہوتے وقت افغان ڈرائیوروں کے حوالے کی جائیں گی اور جوگاڑیاں افغانستان سے پاکستان کی طرف داخل ہوں گی وہ پاکستانی ڈرائیورز کے حوالے کی جائیں گی۔

The post پاک افغان سرحد سے آمدورفت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VrEiaT
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment