Ads

احتیاطی تدابیرہی زندگی کی پہلی ضمانت

یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیرصدارت ایوان صدر میں ہونے والی علماء ومشائخ کانفرنس کامیابی سے ہمکنارہوئی اورحکومت نے رمضان المبارک میں مساجد اورامام بارگاہوں میں عبادات کو احتیاطی اور حفاظتی انتظامات سے مشروط کرتے ہوئے باجماعت نماز تراویح کی اجازت دیدی ہے۔

اس بات پرکوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس موقعے پر ہماری دینی قیادت نے فہم وفراست کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے۔ حکومت، علمائے کرام اور مشائخ عظام بھی اس فیصلے پر یقیناً مبارک بادکے مستحق ہیں کہ انھوں نے افہام وتفہیم سے ایک راہ نکالی ہے۔

اسلام کے دیے گئے نظم ونسق کے درس پر عمل پیرا ہونا ہم سب پرفرض ہے۔ چند ہدایت جو اس حوالے سے جاری کی گئی ہیں، ان میں نمازیوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے،صفوں کے بغیر فرش پر نماز ادا کی جائے گی جس پرکلورین کے محلول کاچھڑکاؤکیا جائے گا، 50سال سے زائد عمرکے افراد،کم عمر بچے اورکھانسی ، نزلہ ، زکام والے افراد مساجد آنے سے گریزکریں گے، ہم ان سطورکے ذریعے توقع رکھتے ہیں کہ مساجد انتظامیہ ان ہدایات پر من وعن عمل درآمد کروائیں گی تاکہ رمضان المبارک میں عبادات کا سلسلہ بخوبی جاری رہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی صورتحال ابھی بہتر ہے، اپریل میں تعداد اندازوں سے کم رہی، تاہم 15 سے25 مئی تک صورتحال مشکل ہو سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ فکر معاشرے کے غریب اورکمزور طبقات کی ہے۔ وزیراعظم کے خیالات اورجذبات حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کومتاثرکیا ہے۔آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹلیناجورجیوا نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ایسے علاقے جہاں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد انتہا تک پہنچ چکی وہاں معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

یہ امر تشویشناک ہے کہ ہمارے ملک میں شعور وآگہی کی کمی کے موجب عوام کی ایک تعداد لاک ڈاؤن پر اس کے حقیقی معنی و مفہوم کے مطابق عملدرآمد کے لیے آمادہ نہیں۔ بالخصوص ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قائم کچی آبادیوں میں لاک ڈاؤن کی کسی کیفیت کا احساس تک نہیں ہوتا، افراد کی بڑی تعداد گھر سے باہر گھومتی اور سماجی و انفرادی فاصلے(سوشل ڈسٹینس) سے عاری اور جابجا ان کی محفلیں جمی دکھائی پڑتی ہیں۔ بچے کھیل کود میں مصروف نظر آتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ انتہائی خطرناک افعال سماجی فاصلہ رکھنے کے اصول کو پامال کرنے کے مترادف ہیں۔

بے احتیاطی کے انتہائی مضرنقصانات انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں رونما ہوسکتے ہیں۔ خدانخواستہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا توایک قیامت برپا ہوجائے گی، اموات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے گا۔ حکومت بلدیاتی قیادت اور علمائے کرام کے ذریعے عوام میں اس مرض کے حوالے سے آگاہی مہم چلائے تاکہ انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔ یہاں پر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا وائرس سے بیرون ملک مقیم پاکستانی بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں،حکومت نے ایئرپورٹس پر اسکریننگ اور ٹیسٹنگ کا انتظام کیا ہے، اسی طرح ان کی محفوظ وطن واپسی کو یقینی بنایا جاسکے گا ۔

پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ یواین اوکے مطابق پاکستان میںکورونا کی خطرناک صورتحال ہوسکتی ہے، وفاق اور صوبوں کا ایک ہی بیانیہ ہونا چاہیے، ہمیں آپس میں نہیں بلکہ کورونا سے لڑنا ہے۔یہ بات انتہائی صائب ہے قومی سیاسی قیادت کو اس نازک ترین موقعے پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں ایک سو ساٹھ افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں، جب کہ متاثرہ مریضوںکی تعداد آٹھ ہزار سے تجاوزکرگئی ہے۔ یہ صورتحال اس امرکی جانب نشاندہی کر رہی ہیں کہ ہماری مشکلات مزید بڑھیں گی۔ادھر یوٹیلیٹی اسٹورز پر رمضان پیکیج کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن انتظامیہ اسٹورز پر دالوں کی فراہمی یقینی بنانے میں ناکام نظر آتی ہے ۔

دال ماش، دال مونگ اور دال مسور بدستور غائب صرف دال چنا دستیاب ہے۔ شہریوں نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر دالوں کی عدم دستیابی کا شکوہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان اسٹورز پر تمام اشیائے ضروریہ کی دستیابی کو یقینی بنائی جائے، تاکہ رمضان پیکیج سے عوام بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ کچھ بات وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے تازہ ترین اقدامات  کے حوالے سے کی جائے تو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاک ڈاؤن کے دوران ہوٹلزکو ہوم ڈیلیوری کے لیے 24 گھنٹے کھلا رکھنے کی اجازت دیدی گئی ہے جب کہ پابندی سے مستثنیٰ دیگر دکانیں شب آٹھ بجے تک ہی کھلی رہیں گی۔

پنجاب حکومت نے شہروں میں مخصوص کاروبارکھولنے کی اجازت دیدی اور حفاظت کے لیے ایس او پیز بھی جاری کیے گئے لیکن ایس او پیز پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آیا،جس سے لاک ڈاؤن برائے نام رہ گیا ہے ،جو دفعہ 144کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ محکمہ داخلہ سندھ کے نئے حکم نامے کے تحت موٹر سائیکل پر ہر طرح کی ڈبل سواری پر پابندی عائدکی گئی ہے اورگزشتہ تمام استثنیات ختم کر دیے گئے ہیں،کسی بھی صورت خواتین اور بچوں کے ہمراہ موٹرسائیکل کی ڈبل سواری کی اجازت نہیں ہوگی۔

حکومت بلوچستان نے چہرے پر ماسک، اسکارف پہننے  یا کپڑے سے منہ ڈھانپنا لازمی قرار دے دیا ہے ،ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔  ہم ان سطورکے ذریعے عوام سے اپیل  کریں گے کہ وہ خدارا، احتیاطی تدابیر کو نظر انداز نہ کریں، تمام  صوبائی حکومتیں عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں لہٰذا لاک ڈاؤن میں عائد پابندیوں کو توڑنے سے اجتناب کیا جائے۔ محکمہ صحت بلوچستان کی رپورٹ کے مطابق کورونا کے 41نئے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد صوبے میں مریضوں کی تعداد 376ہوگئی ہے جب کہ مزید دو افراد صحتیاب ہوئے ہیں ۔

وفاقی حکومت کی ہدایت پر صوبہ سندھ کی تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی اور کاروبار پر پڑنے والے لاک ڈاؤن کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ  چھوٹے تاجروں کو صوبائی محصولات کی وصولی میں مراعات دی جائیںگی۔ آسان شرائط پر قرضے دلانے کے لیے بھی وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔ ملاقات میں اہم فیصلے کیے گئے، جس کے تحت چھوٹے تاجر ہوم ڈلیوری سروس کے تحت کام کرسکیں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ کی تجویز کے مطابق جس دن کپڑے کی دکانیں کھلیں اسی دن درزی اور ان سے منسلک دکانیں کھلیں گی۔ اے سی کی دکانیں ، الیکٹریشنز کی دکانیں بھی ایک ہی دن کھلیں گی۔ سندھ میں 17 برآمدی فیکٹریوں کو بھی کام شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، جن میں14ٹیکسٹائل ملز، 3 انجینئرنگ فیکٹریاں شامل ہیں۔

فیکٹریوں کوکام کی اجازت برآمدی آرڈرز کی تکمیل کے لیے دی گئی۔ خیبر پختونخوا پولیس اور سیکیورٹی فورسزکے علاوہ تاجروں کے رضا کار بھی بازاروں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بازاروں میں آنے والے تمام راستوں پر شہریوں کو اسپرے کے بعد بازاروں میں جانے کی اجازت دی جائے گی اور اسپرے روزانہ کی بنیاد پر ہوگا۔ تمام صوبائی حکومتیں روزانہ کی بنیاد پرکورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہیں، اب یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کریں ۔

عام مشاہدے میں آیا ہے کہ ملک کے مختلف بازاروں میں عوام کے ہجوم سے کورونا وائرس تیزی سے پھیلنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں ،کیونکہ حکومتی احکامات کے باوجود شہری کوروناوائرس کے روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے ہیں ، حالانکہ حکومت نے مختلف صنعتوں کیلیے ایس او پیز جاری کیے ہیں اور اس پر مکمل عمل درآمد کی شرط پر ہی ان صنعتوں کو لاک ڈاؤن کے دوران بھی کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

بلاشبہ ان اقدامات سے جہاں ملازمت کے حوالے سے ذہنی تناؤکا شکار ہونیوالے افراد مطمئن ہوئے ہیں، وہی مزدور پیشہ افرادکو بھی کام کے مواقعے فراہم ہوں گے، حکومت دیگر انڈسٹریزکیلیے بھی ایس او پیز جاری کرے تو اس پر مکمل عملدرآمد کروانے سے ان صنعتوں سے وابستہ افراد کو بھی حوصلہ مل جائے گا اور صنعتی مالکان کو اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے میں آسانی ہوگی۔  وزیراعظم چاہتے ہیں کہ بتدریج صنعتی اور پیداواری عمل کو بحال کیا جائے، اسی تناظر میں وہ اگلے روز تعمیراتی صنعت کو کھولنے کا اعلان کرچکے ہیں جس سے سو کے قریب مزید صنعتیں وابستہ ہیں۔

ماہرین صحت اور سماجی رہنماؤں نے حکومت کی توجہ اس امرکی جانب مبذول کرائی ہے کہ کورونا مریضوں کیلیے استعمال ہونے والی اشیا کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جا رہا ہے جب کہ کراچی میں کورونا مریضوں کا طبی فضلہ نالوں کے ذریعے سمندر میں پہنچے گا تو مچھلیوں سمیت آبی حیات میں منتقل ہونے سے انسانوں کیلیے خطرناک ثابت ہوگا،کراچی میں سخت لاک ڈاؤن کے باوجود بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز پر عوامی حلقوں نے تشویش کا اظہارکیا ہے۔عوام کو لاک ڈاؤن کی پابندیوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے، ورنہ وہ قیامت برپا ہوجائے گی کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔کورونا وائرس کے خلاف ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے ، یہ جنگ جیتنے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ثابت قدمی اوراستقامت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

The post احتیاطی تدابیرہی زندگی کی پہلی ضمانت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xAFkts
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment