دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان عیدالفطر جوش وجذبے سے منانے کی خاطر تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس پُرمسرت اور مقدس موقع پر ہمارے ہاں ہر گھر میں خصوصی کھانے بنتے ہیں: سویّاں‘ دہی بھلے‘ چنا چاٹ‘ شامی کباب اور بہت کچھ۔ ہر چھوٹابڑا مزے سے لذیذ کھانے کھاتا اور اپنی ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں اور بیویوں کی مدح سرائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اے ایمان والو! ہم نے تمہیں جو پاک صاف چیزیں دی ہیں‘ وہ کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘(سورہ البقرہ…172)۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ان غذاؤں سے ہمارے لیے توانائی بنانے میں اس ننھے منے اور غیر مرئی وجود کا اہم کردار ہے جسے ہم جرثومہ (بیکٹیریا) اور وائرس وغیرہ کہتے ہیں۔یہی وجود ہمیں کئی بیماریوں سے مامونیت بھی عطا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل آیت 8 میں فرمایا ہے کہ ہم نے ایسی کئی اشیا تخلیق کیں جنہیں انسان نہیں جانتا ۔ چودہ سو سال قبل کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ اس آیت میں وائرسوں اور جراثیم کی طرف اشارہ ہے جنہیں انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتیں مگر وہ ہماری دنیا میں آباد ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ماہ مارچ سے اللہ تعالیٰ کی اسی غیر مرئی مخلوق کے صرف ایک رکن( وائرس) نے انسانی نظام حیات جام کرکے نوع انسان کو اس کی اوقات یاد دلا دی: ’’بے شک اس عمل میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘(سورہ نحل …12)
کوئی شے نکمّی نہیں
رب کائنات کی پیدا کر دہ غیر مرئی مخلوق میں مگر سبھی وائرس‘ جراثیم اور دیگر ننھے خرد نامیات (microorganisms)انسان دشمن نہیں بلکہ وہ انسانوں کی روزمرہ زندگی میں کئی طرح سے ان کی مدد کرتے ہیں۔وجہ یہ کہ قرآن مجید کا مطالعہ ہی ہمیں آگاہ کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر تخلیق کردہ شے کے فوائد اور نقصان،دونوں رکھے ہیں۔
گویا بقول شاعر مشرق: قدرت کے کارخانے میں کوئی بھی چیز نکمی نہیں۔ قران پاک میں چودہ سال قبل بیان کردہ نکتے اب آ کر سائنس دانوں پر منکشف ہو رہے ہیں۔انسان کے جسم ہی کو لیجیے۔ اس جسم کے ہم اکلوتے مالک نہیں بلکہ ہمارے بدن کے تقریباً ہرحصے میں جراثیم‘ وائرس،کائی اور دیگرخرد نامیات پائے جاتے ہیں۔ ان حصوں میں جلد‘ جگر‘ آنول نال‘ رحم اور نظام ہاضمہ شامل ہیں۔ ہمارا جسم تقریباً 80ارب خلیوں کا مجموعہ ہے۔ جبکہ اس سے کہیں زیادہ تعداد میں جراثیم‘ وائرس وغیرہ انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی کل تعداد 100 ٹریلین بتائی جاتی ہے۔انسانی بدن میں رہتے ان خرد نامیات کو ’’انسانی مائکروباؤمی‘‘(Human microbiome)کا نام مل چکا۔ ان میں اہم ترین نظام ہاضمہ میں بستے جراثیم یا بیکٹیریا ہیں۔ان کی اکثریت آنتوں میں آباد ہے۔
قدرت الٰہی کا شاہکار
آنتیں ہمارے نظام ہاضمہ کا حصہ ہیں۔ یہ انسان جسم کا ایک اہم نظام ہے کیونکہ اسی میں کھائی گئی غذا تحلیل ہو کر شکر بنتی ہے۔ یہ شکر پھر خلیوں کو توانائی فراہم کرتی ہے اور یوں ہم زندہ رہتے ہیں۔ اس نظام ہاضمہ میں کوئی گڑ بڑ ہو جائے تو انسان کی صحت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ اور بعض اوقات تو وہ کوئی کام کرنے کو قابل نہیں رہتا۔ تب سے ماہرین ہمارے جسم میں پلتے بڑھتے ان ننھے منے وجودوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اس تحقیق سے حیرت انگیز اور دلچسپ انکشافات سامنے آ چکے۔ سائنس داں ہمارے نظام ہاضمہ میں بستے جراثیم وغیرہ کو ’’انسانی انضہما می مائکرو بائیوٹا‘‘ (Human gastrointestinal microbiota) کا نام دے چکے۔
تحقیق سے انکشاف ہوا کہ انسانی نظام ہاضمہ خصوصاً آنتوں میں جراثیم اور دیگر خردنامیات کی ہزار ہا اقسام آباد ہیں۔ ان کا مجموعی وزن دو کلو بنتا ہے۔ گویا یہ انسانی جسم کے سربراہ ‘ دماغ سے بھی زیادہ وزنی ہیں جو 1.04 کلو وزن رکھتا ہے۔ انسانی انہضامی مائکرو بائیوٹا کل دس سے پندرہ لاکھ جین رکھتے ہیں۔ جبکہ انسان 23 ہزار جین کا مجموعہ ہے۔ ان حقائق سے آشکارا ہے کہ نظام ہاضمہ میں بستے جراثیم معمولی شے نہیں۔ یہی وجہ ہے‘ اب تحقیق سے ماہرین جان چکے کہ یہ جراثیم درحقیقت انسان کی جسمانی ہی نہیں ذہنی صحت بھی بگاڑنے یا سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔گویا یہ ننھے منے جراثیم قدرت الٰہی کا شاہکار ہیں جن کی بدولت ہمارا جسمانی و ذہنی نظام صحت مند اور فٹ رہتا ہے۔ اگر یہ جراثیم، وائرس وغیرہ نہ ہوتے تو ہم مسلسل طبی مسائل میں مبتلا رہتے اور جلد اللہ کو پیارے ہوجائے۔
انسانی بچہ جب صرف ایک سال کا ہو تو اس میں ایک سو ٹریلین جراثیم، وائرس، کائی وغیرہ (انسانی مائکروباؤمی) پیدا ہوجاتے ہیں۔ انہی میں نظام ہاضمہ کے جراثیم بھی شامل ہیں۔ یہ پھر کاربوہائیڈریٹس، پروٹین اور چکنائی جذب کرنے میں ہمارے نظام ہاضمہ کی مدد کرتے ہیں۔یہ انسان دوست جراثیم غذا کو خمیری بناکر بدن میں جذب کراتے ہیں۔
اس عمل سے مختلف تیزابی مادے مثلاً ایسیٹک(acetic)، پروپایونک(propionic)، بوٹائرک(butyric)، لیکٹک(lactic) جنم لیتے ہیں۔ یہ سبھی تیزاب انسانی جسم مختلف طریقوں سے استعمال کرتا ہے۔مثلاً ایسیٹک تیزاب سے ہمارے عضلات اپنے آپ کو صحت مند رکھتے ہیں۔ پروپایونک تیزاب جگر کو اے ٹی پی بنانے میں مدد دیتا ہے۔ یہی سالمہ غذا کی توانائی کو جسمانی ایندھن میں تبدیل کرتا ہے۔ بوٹاٹرک تیزاب آنتوں کے خلیوں کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔ لیکٹک تیزاب دماغ کے خلیے کام میں لاتے ہیں۔
ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے
انسان کے نظام ہاضمہ میں یہ جراثیم نہ ہوں تو پھر غذا ہضم کرنا کٹھن مرحلہ بن جائے۔ تب انسان کو ہروقت کھانا پڑے گا تاکہ غذا سے اسے توانائی ملتی رہے۔ ایسی صورت میں انسان کوئی دوسرا کام نہیں کرسکتا۔ اسے بس خود کو زندہ رکھنے کی فکر ستاتی رہتی۔ ہمیں نظام ہاضمہ کے جراثیم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ ہماری کھائی بیشتر غذا ہضم کردیتے ہیں۔ یوں ہمارے بدن کو مسلسل توانائی ملنے لگی اور ہم مختلف کام کرنے کے قابل ہوگئے۔یہی نہیں، یہ جراثیم وٹامن معدنیات اور ہارمون بنانے میں بھی انسانی جسم کی مدد کرتے ہیں۔
ان میں وٹامن بی، کے، فولیٹ، میگنیشم، کیلشیم اور فولاد جیسے اہم غذائی عناصر شامل ہیں۔ غرض ان جراثیم کا ہمارے بدن میں غدہ (Gland) جیسا کردار بھی ہے۔نظام ہاضمہ میں بستے جراثیم ہمارے مدافعتی نظام سے بھی گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ حقیقتاً جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ انسانی مدافعتی نظام کے ’’80 فیصد‘‘ کام ہمارے نظام ہاضمہ ہی میں انجام پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، جب نظام ہاضمے میں کوئی گڑبڑ ہوجائے تو ہمارا موڈ بھی بگڑ جاتا ہے۔ تب کوئی کہتا ہے کہ جی متلا رہا ہے۔ کسی کو متلی آتی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی پیٹ درد کی شکایت کرتا ہے۔ غرض ایسی صورت حال میں بعض اوقات روزمرہ کا شیڈول درہم برہم ہوجاتا ہے۔
دراصل جب بچہ جنم لے تو اس کا مدافعتی نظام ناپختہ ہوتا ہے۔ دنیا میں آکر کئی دن تک ماں کی طرف سے دیئے گئے حفاظتی سالمے (اینٹی باڈیز )ہی اس کو بیماریوں اور انسان دشمن خرد نامیات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تب ضرورت ہوتی ہے، ہمارے مدافعتی نظام کے خلیوں کو سکھایا جائے کہ انہیں بچے کی حفاظت کیونکر کرنی ہے۔ سائنس دانوںکا کہنا ہے کہ بچے کے نظام ہاضمہ میں موجود جراثیم ہی ان خلیوں کو کام کرنے کا طریق کار سکھاتے ہیں۔ یہ ان جراثیم کی ایک اور بڑی خصوصیت اور انسان دوست عمل ہے۔
وجہ یہ ہے کہ نظام ہاضمہ کے جراثیم جب غذاؤں کو خمیر بناکر نامیاتی تیزاب (ایسیٹک، پروپایونک، بوٹائرک، لیکٹک) پیدا کریں تو ان کی وجہ سے کئی مدافعتی اور ہارمونی عمل جنم لیتے ہیں۔ یوں ہمارا مدافعتی نظام پرورش پاکر مضبوط بننے لگتا ہے۔ تحقیق و تجربات سے انکشاف ہوا ہے کہ جو بچے قدرتی طریق پیدائش کے بجائے سیزرین آپریشن سے پیدا ہوں، ان میں ذیابیطس قسم اول، دمہ اورموٹاپا پیدا ہونے کی شرح ’’20 فیصد‘‘ زیادہ ہوتی ہے۔وجہ یہ کہ سیزرین آپریشن ایک صاف ستھرا عمل ہے۔ اس کے باعث بچے کی آنتوں میں خصوصاً جراثیم جلد پیدا نہیں ہوپاتے۔ اسی لیے اس کا مدافعتی نظام بھی دیر سے جنم لیتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ بچہ مخصوص عوارض میں مبتلا ہوجائے۔ قدرتی طریق پیدائش میں بچے کا فوراً جراثیم سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ اس لیے جلد وہ بچے کا مدافعتی نظام بھی متحرک کردیتے ہیں۔
بدن کی ابتدائی حفاظتی فوج
جراثیم اور مدافعتی نظام کا تال میل سمجھنے کی خاطر سائنس دانوں نے لیبارٹری میں انوکھا تجربہ کیا۔ انہوں نے چوہوں کے ایسے بچے پیدا کیے جن میں ایک جرثومہ بھی موجود نہ تھا۔ بچوں کے مدافعتی نظام میں اہم خلیے بھی موجود نہیں تھے۔ ان بچوں کو پھر دو تین اقسام کے جراثیم دیئے گئے۔ ان جراثیم نے جسم میں پہنچتے ہی نہ صرف مدافعتی نظام کو بڑھاوا دیا بلکہ وہ خلیے بھی پیدا کر ڈالے جو پہلے عنقا تھے۔ اس تجربے سے عیاں ہوا کہ ہر زندہ جسم میں جراثیم اور مدافعتی نظام کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ہماری آنتوںکی جھلیاں جراثیم کا مسکن ہیں۔
یہ جراثیم خود بھی ہمارے بدن کی ابتدائی حفاظتی فوج ہیں۔ جب انسان دنیا میں آئے تو منہ، ناک، آنکھ اور کان کے راستے قسم قسم کے جراثیم، وائرس اور دیگر خرد نامیات جسم میں داخل ہونے لگتے ہیں۔ جب یہ بیرونی حملہ آور نظام ہاضمہ میں داخل ہوں تو سب سے پہلے وہاں موجود جراثیم ہی ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ حفاظتی فوج انسان دوست جراثیم، وائرسوں وغیرہ کو تو کچھ نہیں کہتی اور انہیں جانے دیتی ہے لیکن جو خردنامیات انسانی صحت کے دشمن ہوں، انہیں ختم کرنے کی بھرپور سعی کرتی ہے۔ گویا نظام ہاضمہ کے جراثیم انسانی جسم میں ہر اول حفاظتی دستے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جب بھی انسان کسی بیماری یا الرجی کا شکار ہو تو ہمارا مدافعتی نظام ردعمل میں سوزش پیدا کرتا ہے۔ اگر آنتوں کے جراثیم نہ ہوتے تو یہ مدافعتی نظام معمولی معمولی باتوں پر سوزش پیدا کرنے لگتا۔ یوں ہم ہر وقت تکلیف میں مبتلا رہتے اور ہماری بیشتر توانائی اس سے نجات پانے میں صرف ہوجاتی۔ آنتوں کے جراثیم کو دعا دیجیے کہ وہ نظام ہضم میں آنے والے عام حملہ آوروں کو وہیں مار دیتے ہیں اور مدافعتی نظام متحرک نہیں ہونے دیتے۔
ورنہ ہم کوئی بھی نیا کھانا کھاتے یا گاؤں جاتے جہاں مختلف اقسام کے درخت ہوتے ہیں تو ہمارا مدافعتی سرگرم ہوکر ہمیں درد میں مبتلا کردیتا۔انسانی جسم میں برداشت (Tolerance) اور ردعمل (Reaction) کے مابین توازن رکھنا مدافعتی نظام کی ذمے داری ہے۔یہ توازن اسی وقت جنم لیتا ہے جب نشوونما پاتے بچے کا مختلف اقسام کے جراثیم، وائرسوں، کائی اور دیگر خرد نامیات سے سابقہ پڑ جائے۔ ہم میں یہ توازن جنم لینا انتہائی ضروری ہے کیونکہ وہی مدافعتی نظام کے خلیوں کو پیدا کرتا اور یہ اہم نکتہ سمجھاتا ہے کہ ہر شے بری نہیں ہوتی۔ اسی توازن کی مدد سے مدافعتی نظام اچھے اور برے جراثیم، وائرسوں و دیگر خرد نامیات میں تمیز کرنا سیکھتا ہے۔
ہر انسان میں الگ الگ
بعض اوقات مضرِ صحت غذائیں زیادہ کھانے، نیند نہ لینے، سگریٹ نوش کرنے، نشہ اپنانے اور بہت زیادہ اینٹی بائیوٹک ادویہ کھانے سے ہمارے نظام ہاضمہ میں کروڑوں جراثیم مرجاتے ہیں۔ تب انسان دوست جراثیم کم ہونے سے نہ صرف حملہ آور خرد نامیات کو ہمارے نظام ہاضمہ پر حملے کرنے کا موقع ملتا ہے بلکہ مدافعتی نظام بھی متحرک ہوکر مسلسل سوزش پیدا کرنے لگتا ہے۔ اسی باعث انسان پھر ہاضمے کی بیماریوں مثلاً بدہضمی، معدے کی جلن، قبض، دست اور دیگر خطرناک امراض مثلاً ذیابیطس قسم 2، موٹاپا، ڈپریشن حتیٰ کہ کینسر میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
انوکھی بات یہ ہے کہ ہر انسان میں خصوصاً نظام ہضم کے دو تہائی جراثیم اسی سے مخصوص ہوتے ہیں… یعنی وہ کسی اور انسان میں نہیں پائے جاتے۔ گویاوہ فنگر پرنٹس اور دانتوں کی طرح ہر انسان میں الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہم جو کھانے کھائیں، جس ہوا میں سانس لیں اور دیگر ماحولیاتی عناصر ان جراثیم کو ہر آدمی میں علیحدہ و منفرد بناتے ہیں۔
دوسری نرالی بات یہ کہ انسانی جسم میں جتنی زیادہ اقسام کے جراثیم، وائرس اور دیگر خرد حیاتیات آباد ہوں، اتنا ہی اچھا ہے۔ اس رنگارنگی سے انسانی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو معتدل مقدار میں ہر غذا کھانی چاہیے۔ اسی طرح انسان کے نظام ہضم میں مختلف اقسام کے جراثیم جنم لیتے ہیں۔ اگر کوئی صرف سبزیاں و پھل کھاتا رہے تو وہ ایسے انسان دوست جراثیم سے محروم رہ سکتا ہے جو سفید و سرخ گوشت میں ملتے ہیں۔
بچوں کو مٹی میں کھیلنے دیں
تحقیق سے آشکارا ہوا ہے کہ جن بچوں کے نظام ہضم میں مختلف اقسام کے جراثیم پیدا نہ ہوں، وہ آگے چل کر فوڈ الرجی، ذیابیطس اور دمے کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے اب ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کو حد سے زیادہ پاک صاف جگہ میں نہ رکھا جائے کیونکہ اس باعث ان کا مدافعتی نظام مضبوط نہیں ہوپاتا۔ ظاہر ہے، جب مدافعتی نظام کا نت نئے جراثیم سے پالا ہی نہیں پڑے گا تو وہ کیسے نشوونما پاسکتا ہے؟ اسی واسطے کسی حد تک بچوں کو ریت مٹی میں بھی کھیلنے دیں اور انہیں بیرونی ماحول میں جانے سے نہ روکیں۔
اسی چلن کے ذریعے ان کا جسم مختلف قسموں کے جراثیم سے آشنا ہوگا۔امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پروفیسر سوزین لائنچ انسانی مائکروباؤمی پر تحقیق کررہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جو بچے دیہی ماحول میں مرغیوں، بلیوں، کتوں، بطخوں، گائے، بھینسوں اور بکریوں کے درمیان رہتے ہوئے پرورش پائیں، ان کے جسم میں زیادہ اقسام کے جراثیم، وائرس وغیرہ ملتے ہیں۔ اسی لیے وہ نہ صرف بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کا مدافعتی نظام بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ شہروں کے بچوں کو ایسے ماحول سے پالا نہیں پڑتا۔ لہٰذا ان کے بدن میں جراثیم کی زیادہ رنگا رنگی کم ملتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تین چار سال کی عمر تک ہر بچہ جراثیم کی مطلوبہ اقسام حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے بعد جسم میں شاذونادر ہی جراثیم اور وائرسوں کی مزید نئی قسمیں جنم لیتی ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جراثیم مرتے اور پھر پیدا ہوتے ہیں مگر ان کا مجموعہ کم و بیش ایک جیسا رہتا ہے۔ اگرچہ ماحولیاتی عناصر اور طرز زندگی انسانی مائکروباؤمی میں تبدیلیاں لاسکتا ہے۔
جراثیم کی رنگارنگی
انسانی بدن میں مفیدجراثیم کی زیادہ سے زیادہ اقسام ہونا ہماری صحت کے لیے ہی مفید ہے۔یہ پھر ہمیں کئی امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر موٹاپا! امریکا کی کورنیل یونیورسٹی کے ماہرین نے پچھلے سال ایک تجربے سے دریافت کیا کہ جن لوگوں میں جراثیم کی ایک قسم پائی جائے، وہ سمارٹ اور چست ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ لیبارٹری میں جن چوہوںکو موٹاپا کم کرنے والے جراثیم دیئے گئے انہوں نے خوب موٹے تازے چوہوں کو بھی دبلا پتلا بنا دیا۔ انسان کے بدن میں موٹاپا مار جراثیم جین کے اثرات سے بھی جنم لیتے ہیں۔
یعنی والدین اگر سمارٹ ہیں تو عموماً ان کے بچے بھی دبلے پتلے ہوتے ہیں۔نظام ہاضمہ کے جراثیم کی رنگارنگی کینسر کے علاج میں انسان کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ کئی تجربات اور تحقیقات سے ثابت ہوچکا کہ کینسر کے جن مریضوں میںجراثیم کی اقسام ہوں، ان پر کیموتھراپی کے مضر اثرات کم مرتب ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، ان میں کینسر ختم والی ادویہ زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔کئی مردوزن کو جان کر حیرت ہوگی کہ نظام ہاضمہ کے جراثیم ہماری ذماغی صحت بھی بہتر بناتے ہیں۔ وجہ یہ کہ یہ جراثیم مختلف کیمیائی مادے یا نیورو ٹرانسمیٹر پیدا کرتے ہیں۔ ہمارا دماغ پھر ان کیمیائی مادوں کی مدد سے مختلف دماغی اعمال انجام دیتا ہے۔ ان میں سے کئی اعمال یادداشت ،سیکھنے کے عمل اور موڈسے متعلق ہیں۔
خاص طور پر ہمارے بدن میں 90 فیصد ’’سیروٹونین‘‘(Serotonin) یہی جراثیم پیدا کرتے ہیں۔ سیروٹونین ایک اہم کیمیائی مادہ ہے۔ یہ انسانی جسم کئی افعال انجام دینے میں حصہ لیتا ہے۔ خصوصاً یہ ’’ خوشی کا کیمیکل‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کے جنم لینے سے انسان خوشی و اطمینان کے جذبات محسوس کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیروٹونین ہمارے موڈ، معاشرتی رویے، بھوک کو منظم منضبط کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے، نظام ہاضمہ کے جراثیم اگر کسی وجہ سے سیروٹونین خارج نہ کریں، تو انسان مختلف نفسیاتی عوارض مثلاً ڈپریشن، پژمردگی، افسردگی وغیرہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دماغ اور ہمارے جسم میں پائے جانے والے انسانی مائکروباؤمی پر مزید تحقیق جاری ہے۔
مثال کے طور پر آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ جب انسان زیادہ نمک کھائے، تو نظام ہاضمہ کے جراثیم پریشان ہوجاتے ہیں۔ ان کی توسط سے پھر ہمارا مدافعتی نظام دماغ کو یہ کیمیائی سگنل بھجواتا ہے کہ وہ نظام ہاضمہ سے نمک کا بوجھ کم کرے۔ان کیمیائی سگنلوں کے نتیجے میں دماغ کے دو اہم حصوں، کورٹیکس (cortex) اور ہائپو کامپس(hippocampus) میں خون کی روانی کم ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں حصے سیکھنے اور یادداشت سے متعلق ہیں۔ جب اہم دماغی اعضا میں خون کی روانی کم ہو تو دماغ میں اسٹروک جنم لینے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اور یہی دماغی اسٹروک ہرسال دنیا بھر میں لاکھوں مردوزن کی جانیں لیتا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ نمک زیادہ کھانے، نظام ہاضمہ کے جراثیم، مدافعتی نظام اور دماغ کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ اسی تعلق کی وجہ سے انسان نمک زیادہ کھانے کے باعث اسٹروک ہی نہیں دیگر خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر کا نشانہ بن جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو روزانہ زیادہ سے زیادہ 5 گرام نمک کھانا چاہیے یعنی ایک چمچ۔ لیکن بہت سے لوگ روزانہ 9 سے 12 گرام نمک کھا جاتے ہیں۔ نمک کی زیادتی پھر ان کی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔
غذا اور سوچ کا تعلق
درج بالا تحقیق سے یہ حیرت انگیز سچائی بھی سامنے آئی کہ ہم جو غذائیں کھاتے پیتے ہیں، وہ ہماری جسمانی ہی ذہنی صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ گویا اب آپ کوئی بھی شے کھائیے یا نوش کریں، تو جان لیجیے کہ وہ آپ کی سوچ اور جذبات پر بھی منفی یا مثبت اثرات مرتب کرے گی۔مثال کے طور پر ایک تحقیق سے عیاں ہوا کہ سرخ گوشت اگر زیادہ کھایا جائے تو وہ آنتوں کے جراثیم پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سرخ گوشت نظام ہاضمہ میں ان جراثیم کی پرورش کرتا ہے جو آنتوں میں سوزش پیدا کرتے ہیں۔ اسی سوزش کے باعث انسان السر اور نظام ہاضمہ کی دیگر بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔ یہی نہیں، تحقیق سے معلوم ہوا سرخ گوشت کھانے سے ان جراثیم کی تعداد کم ہوگئی جو فائبر کو جسم میں جذب کرتے ہیں۔ لہٰذا سرخ گوشت اعتدال سے کھائیے اور ان کے فوائد سے مستفید ہوں۔ مگر اس غذا کی زیادتی انسان کو مختلف طبی مسائل میں گرفتار کراسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس روزمرہ غذا میں گوشت زیادہ ہو اور فائبر کم، وہ نظام ہاضمہ کے لیے مضر ہے۔ ایسی غذا جسم میں سوزش پیدا کرتی اور انسان کوکینسر کا نشانہ بھی بناسکتی ہے۔ مگر انسان پھل اور سبزیاں زیادہ کھائے تو نظام ہاضمہ کے جراثیم کو فوائد پہنچتے ہیں۔ دہی بھی ان کے لیے مفید ہے مگر اسے بھی اعتدال سے کھانا چاہیے۔ اگر جراثیم کو من پسند غذائیں نہ ملیں تو نظام ہاضمہ میں ان کی تعداد کم ہوسکتی ہے۔ اس سے انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔
سائنس دانوں نے تحقیق سے جانا ہے کہ غذائی فائبر یا ریشہ جراثیم کے لیے مفید ہے جو سبزیوں اور پھلوں میں ملتا ہے۔ ہر بالغ کو روزانہ 30 سے 40 گرام فائبر اپنی غذاؤں سے لینا چاہیے مگر کم ہی انسان یہ مقدار لیتے ہیں۔ نتیجتاً وہ فائبر کی کمی سے مختلف عوارض مثلاً قبض، گیس ٹربل، ذیابیطس قسم کے اور امراض قلب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ نیز آنتوں کے جراثیم بھی نشوونما نہیں پاتے۔
پروبائیوٹک اور پری بائیوٹک
ماہرین طب کا کہنا ہے، پروبائیوٹک (Probiotics) غذاؤں کا معتدل استعمال ہمارے انسانی مائکروباؤمی کے لیے مفید ہے۔ ایسی غذاؤں میں دہی، لسی، اچار شامل ہیں۔ان میں زندہ خرد نامیات موجود ہوتے ہیں۔ یہ ہاضمے کی خرابیاں دور کرتی اور مدافعتی نظام مضبوط بناتی ہیں۔ تاہم بہت سے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان کا اعتدال سے استعمال ہی فائدہ دیتا ہے۔ خصوصاً زیادہ اچار کھانے سے نظام ہاضمہ میں اچھے جراثیم مرسکتے ہیں۔پھلوں اور سبزیوں میں پری بائیوٹک (Prebiotics) مرکبات بھی ملتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانی جسم میں اچھے جراثیم کی نشوونما کرتے اور ان کی تعداد بڑھاتے ہیں جو فائبر ہمارے جسم میں جذب نہ ہوسکے، وہ انہی پری بائیوٹک مرکبات پر مشتمل ہے۔
ہمارے نظام ہاضمہ کے خردنامیات کو نقصان پہنچانے والے عناصر میں اینٹی بائیوٹک ادویہ شامل ہیں۔ دراصل ہمارے جسم میں دوست اور دشمن جراثیم وائرس وغیرہ آس پڑوس میں بستے ہیں۔ ان کے مابین ہمیشہ جنگ جاری رہتی ہے۔ انسان منفی طرز زندگی اختیار کرلے تو اس کے دوست انسانی مائکروباؤمی کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔ تب ہمارے دشمن خرد نامیات انسانی جسم پر قبضہ کرکے اسے متفرق بیماریوں کا نشانہ بناڈالتے ہیں۔
مثبت طرز زندگی راکٹ سائنس نہیں
انسان اگر مثبت طرز زندگی اپنائے رکھے تو نہ صرف اس کے جسم میں بستے کھربوں خردنامیات کو فائدہ پہنچتا ہے بلکہ آخر کار اسے ہی تندرستی کی دولت نصیب ہوتی ہے۔مثبت طرز زندگی اختیار کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں، بس متوازن غذا کھائیے، پانی پی کر اپنے بدن میں نمی رکھیے، ورزش باقاعدگی سے کیجیے، رات کو اچھی نیند لیجیے اور پریشانی کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیجیے۔ یہ طرز حیات اپنا کر آپ بھرپور اور مثالی زندگی گزار سکتے ہیں۔
انسان کی زندگی میں غذا کی بہت اہمیت ہے۔ وجہ یہی کہ وہ جس قسم کے کھانے کھاتا ہے، وہ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت پر اچھے یا برے اثرات ڈالتے ہیں۔ اسی نقطے کومشہور امریکی ادیبہ، ورجینیا ولف نے اپنے ایک ناول میں یوں بیان کیا: ’’انسان اگر اچھا کھانا نہ کھائے، تو وہ اچھا سوچ نہیں پاتا، محبت بھی نہیں کرسکتا اور نہ نیند اچھی لے پاتا ہے۔‘‘ لہٰذ اگر آپ نے طعام کے منفی طور طریقے اختیار کررکھے ہیں تو انہیں ختم کیجیے اور اپنی زندگی میں مثبت انقلاب لے آئیے۔
اچھی غذا کا انتخاب بھی بڑا مسئلہ نہیں۔ بس یہ دھیان رکھیے کہ گوشت، ڈیری مصنوعات، میٹھی اشیا اور چکنائی والی غذائیں کم کھائیے۔ اپنی روزمرہ غذا میں سبزیاں، پھل، مغزیات، ثابت اناج اور دالیں زیادہ رکھیے۔ یہ صحت مندانہ غذائی عمل خصوصاً ہمارے انسانی مائکروباؤمی کو مفید غذائیت پہنچا کر تندرست و توانا رکھے گا اور ان کی تندرستی سے انسان بھی جسمانی و ذہنی طور پر چست و توانا رہے گا۔
سائنس داں اب انسانی نظام ہاضم میں پائے جانے والے تمام جراثیم، وائرسوں اور دیگر خردنامیات کی درجہ بندی کررہے ہیں۔ اس کے بعد یہ مرحلہ آئے گا کہ ہر قسم انسانی صحت پر کیونکر اچھے یا برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جب انسان کو تمام مطلوبہ معلومات حاصل ہوجائیں گی تو مستقبل میں انسانی مائکروباؤمی کی مدد سے نظام ہاضمہ، مدافعتی نظام اور دماغ کی کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہوسکے گا۔
انسان کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ابھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ اسے اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا مگر ایک معمولی وائرس نے اس کی دنیا تہہ و بالا کرڈالی۔ انسان اللہ پاک کا فرماں بردار بن کر ہی کائنات میں چھپے ان گنت اسرار پاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اور ہم اس کی پریشانیاں کم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ نساء۔28)
The post وائرس وبیکٹیریا ہمارے دوست بھی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XfZMK6
via Blogger https://ift.tt/2XjdJab
May 30, 2020 at 10:59PM
0 comments:
Post a Comment