Ads

بارشوں سے ہونے والے نقصانات

ملک بھر میں مون سون کا سیزن جاری وساری ہے اور اس کے نتیجے میں نقصانات کا سلسلہ بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہماری کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں کی ہے کہ یہ جو ہرسال موسم برسات میں خستہ مکان ڈھے جاتے ہیں اور شکستہ چھتیںگر پڑتی ہیں، جن سے قیمتی انسانی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں پھر اس کے علاوہ ہزاروں ایکڑ پرکھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوجاتی ہیں اور شہروں میں نظام زندگی ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے، اس کا کوئی مستقل اور پائیدار حل تلاش کیا جائے۔

عوام کی اکثریت بارش کی تباہ کاریوں سے اس قدرمتاثر ہورہی ہے کہ زندگی کا تمام تر نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ ندی نالوں میں طغیانی سے کئی علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں، سڑکیں پانی کی وجہ سے بند ہوجاتی ہیں اور ٹریفک پھنس کر رہ جاتی ہے۔ منٹوں کا سفر،گھنٹوں میں طے ہوتا ہے،گھر سے نکلنا اور نوکری پیشہ افرادکا دفاتر تک پہنچنا ناممکن ہورہا ہے۔

شہزاد احمد نے کہا تھا۔

میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر

کانپ اٹھتا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر

ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں جس وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور شہرکے ندی نالے ابلنے سے سڑکیں تالاب بن گئی ہیں،گھروں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے اور اس کی نکاسی کا کوئی بندوبست سرے سے نہیں کیا جا رہا ہے،کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن کے دوسو سے زائد خاندان نقل مکانی پر مجبورہوئے ہیں۔ نیوکراچی گجرنالے میں گزشتہ روز ڈوبنے والے 3 افراد میں سے 2 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں جب کہ ایک کی تلاش جاری ہے، ڈوبنے والے افراد پانی کے ریلے میں بہہ گئے تھے ، بارش کے بعد بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا 500 سے زائد فیڈرمتاثر ہوئے مختلف علاقوں میں بجلی کی طویل بندش کا سلسلہ جاری رہا بعض علاقوں میں رات گئے تک بجلی بحال نہ ہوسکی ۔لاہور سمیت  پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں برسات کے بعد مسائل کا انبار لگ جاتا ہے۔

قدرتی آفات ازل سے ہی انسانی کی آزمائش بنی ہوئی ہیں، مگر ان آفات سے نمٹنے میں اب تک وہی ملک یا قومیں سرخرو ہوئیں، جنھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور اتحادکا مظاہرہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ دونوں صفات نہیں پائی جاتی ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موثر منصوبہ بندی ہے اورنہ ہی اتحاد کا وہ مظاہرہ جو ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

ملک میں جہاں ایسے حالات ہیں وہاں حکمراں اوراپوزیشن طبقہ روایتی طورپر اس کے لیے ایک دوسرے پر الزام عائدکرنے میں مصروف ہیں۔ انٹرنیشنل ریڈکراس کے اعدادوشمارکے مطابق 2025 تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے 50 فی صد سے زیادہ لوگ سیلاب اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہوں گے، یقیناً یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے۔

یہاں پر چند بنیادی سوالات عوام کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔کیا عوامی مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل ہو رہے ہیں؟ تمام متعلقہ محکموں کے ملازمین ہمہ وقت فرائض کی ادائیگی کررہے ہیں؟کیا چھوٹے بڑے شہروں میں ندی، نالوں پرقائم تجاوزات کو ختم کیا گیا ہے۔ نالوں کی صفائی کی گئی ہے؟ہر سوال کا جواب ہے، نہیں، نہیں۔ یعنی تمام انتظامی ادارے غیرفعال ہیں لیکن ان کے ہزارہا ملازمین لاکھوں،کروڑوں کی تنخواہیں قومی خزانے سے وصول کررہے ہیں۔

چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام سرے سے موجود نہیں ہے۔’’گالیاں‘‘ تو تمام ملکی سیاسی جماعتوں کو پڑتی ہیں لیکن درحقیقت جن درجن بھر اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ صفائی وستھرائی اوردیگرامورکاخیال رکھیں، ان کاکوئی ورکر فیلڈ میں نظر نہیں آتا، لے دے کر ہم   فوج کے ذیلی اداروں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا سسٹم فیل ہوچکا ہے یا اس کو چلانے کی ذمے داری میں ہم غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔

کیا یہ سچ نہیںہے کہ مگرمچھ کے آنسو بہانے والا یہی طبقہ دراصل ان تباہ کاریوں کا ذمے دار ہے اور اس سسٹم کا  بھی خدا ہی حافظ ہے۔ وہ ہیلی کاپٹر سے ہماری بربادیوں کا نظارہ کرتے ہیں، اپنی سیاست چمکاتے ہیں، پھرفوٹو سیشن ہوتاہے، بعد ازاں صوبائی اور شہری حکومتیں، وفاقی حکومت سے امدادکی اپیل کرتی ہیں، مرکزی حکومت عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرتی ہے اورجب امداد مل جاتی ہے تو یہ امداد نیچے سے لے کراوپر تک بیٹھے بدعنوان لیڈروںاورافسروں کی ’’ غربت ‘‘دورکرنے کے کام آتی ہے، جب کہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے عام آدمی کے لیے امدادکا انتظار، اتنا طویل ہوتا ہے کہ امداد پہنچتے پہنچتے وہ کسی دوسری آفات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

برسات کے جملہ نقصانات سے بچاؤکے بہت سے موثر طریقے ہیں۔ مثلاً سب سے پہلے یہ کہ تمام دریاؤں، ندی ، نالوں کی گہرائی میں اضافہ کیا جائے۔ اس وقت دریائے راوی کی حالت یہ ہے کہ اگر برساتی پانی کے ساتھ لاکھ دو لاکھ کیوسک پانی بھارت چھوڑ دے تو دریائے راوی سے متصل تمام دیہی علاقے زیرآب آجائیں گے اور لوگ جان ومال سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، اگر اس کو انتہائی گہرا کر دیا جائے تو پھر بھارت کی طرف سے آنے والا پانی ہمارے لیے تحفہ ہوجائے جس سے ہم اپنی فصلوں کی آبیاری کرسکیں گے اور سیلاب کے خطرات سے بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے۔ دوسرا کام پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے سیوریج سسٹم کو جدید خطوط پر تعمیرکیا جائے۔

اس کے لیے غیر ملکی فرموں سے بھی تعاون مانگا جا سکتا ہے مثلاً جاپان کا سیوریج سسٹم دنیا کا جدید ترین سسٹم ہے، اگر میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لیے پورے لاہور کو ادھیڑا جاسکتا ہے تو سیوریج سسٹم کو ’’اپ ڈیٹ‘‘ کرنے کے لیے کیوں یہ عارضی تکلیف نہیں اٹھائی جا سکتی؟ اس عارضی زحمت کے بعد ہمیشہ کا آرام اور سکھ جو عوام کو نصیب ہوگا تو وہ حکمرانوں کو دعائیں دیں گے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے لیے چین اور ترکی کے ساتھ قابل ذکر معاہدے کیے اور ان کی تکمیل کے لیے بھی دن رات کوشاں رہے، لیکن موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے صوبے کو بچانے میںگزشتہ دوسال سے قابل ستائش کارکردگی دکھاتے نظر نہیں آتے ہیں۔ لاہور اور دیگر شہروں وقصبوں کو نقصانات سے بچانا ہے تو عملی طور پر میدان میں آکرکام کرنا ہوگا۔

بارش کے نقصانات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام چھوٹے، بڑوں شہروں میں تمام مخدوش اور خستہ مکانات اور عمارات کو ایک نوٹس دینے کے بعد حکومت خود منہدم کردے تاکہ قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ لاہور اورکراچی میں ابھی تک ایسے مخدوش اور شکستہ مکانوں، دکانوں اورعمارتوں کی بھرمار ہے جو ایک بارش کا بوجھ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ابھی بارشوں کا موسم ختم نہیں ہوا ہے، لہٰذا ایسی تمام عمارتوں کو خالی کروا کرگرا دیا جانا چاہیے،کیا ہم مزید چھتیں گرنے اور لاشوں پر نوحہ خوانی کرنے کا انتظارکر رہے ہیں؟بارشوں کے تسلسل میں ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں، محلوں، شہروں قصبات اورگلی محلوں کو صاف ستھرا رکھ کر مچھروں کی افزائش نہ ہونے دیں تو ڈنگی کے مرض کا خاتمہ ممکن ہے اور ترقی یافتہ ممالک نے اسی طرح ڈنگی پر قابو پایا ہے۔ ڈنگی کے مرض سے بچاؤکے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے اور مون سون سیزن میں یہ مسئلہ زیادہ ہوجاتا ہے جب کہ عام طور پر لوگوں کی توجہ آلودہ پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ ڈنگی لاروے کی پرورش صاف اور ساکن پانی میں ہوتی ہے جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندرموجود ہوتا ہے۔

ہاٹ اسپاٹس کی سو فیصد کوریج اور مچھروں کی بریڈنگ سائٹس کا خاتمہ انتظامی بلدیاتی اداروں کی اولین ذمے داری ہونی چاہیے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ ملک بھر میں مون سون شجرکاری مہم جاری ہے، پاکستان کوسرسبز اورصاف بنانے کے لیے ہم میں سے ہرایک کو فعال کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔ درخت ہمیں نہ صرف آکسیجن مہیا کرتے ہیں بلکہ یہ ہمیں موسموں کی سختیوں سے بھی بچانے میںاہم کردار کرتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں ان دنوں ابر رحمت کھل کر برس رہا ہے، جس سے ملک میں موجود ڈیمز میں بھی پانی کی سطح بلند ہوگئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، ڈیمز، بیراج اور آب پاشی کی نہریں ہونے کے باوجود ملک میں بارش کے پانی جمع کرنے کے طریقوں کی ضرورت ہے،تاکہ اس پانی کو سڑکوں پر ضایع ہونے سے بچایا جاسکے۔ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور بیشتر لوگ کھیتی باڑی چھوڑکرکارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے لگے ہیں، جوکہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ تاہم پانی ذخیرہ کرنے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جاسکے ہیں، جس کے باعث ملک میں پانی کے موجودہ ذخائرتیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔

اب ماہرینِ ماحولیات اور دیگر متعلقہ حکام اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ہر شخص کوکوشش کرنا ہوگی۔کئی ممالک کے شہروں اور ریاستوں میں اس بات کو لازمی قرار دیا جاچکا ہے کہ نئی عمارتوں کی تعمیر کرتے وقت پانی جمع کرنے کا بھی کوئی نہ کوئی انتظام ضرورہونا چاہیے۔ بارش کا پانی جو شاہراہوں پر بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے اسے ہزاروں گیلن کی گنجائش والے ٹینکوں میں جمع کیاجاسکتا ہے، لیکن ہمارے یہاں تو بنیادی انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے، بلدیاتی ، شہری اور انتظامی ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ہمارے حکمران اور انتظامی ادارے اگرگڈگورننس کا مظاہرہ کریں توملک کے تمام مسائل کو بہ طریقہ احسن حل کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے نیک نیتی اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔

The post بارشوں سے ہونے والے نقصانات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3l9Za2t
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment