Ads

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبد الرحمن عرف بھولا اور زبیر چریا کو264 مرتبہ سزائے موت دینے کا حکم دیدیا ۔

یہ پاکستان کی تاریخ کا دہشت گردی کا سب سے بڑا اندوہناک اور دردناک واقعہ تھا، جب کراچی سائٹ بی کے علاقے میں واقع علی انٹر پرائز گارمنٹس فیکٹری میں 11ستمبر 2012 کو شدید آگ لگی تھی،جس پر 12 ستمبر کو قابو پایاگیا۔فیکٹری میں آمد ورفت کے لیے 4 دروازے تھے،جن میں سے 3 بند ہونے کے باعث 259 افراد جل کر جاں بحق ہوئے،جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔

یہ سارا قبیحہ فعل بھتہ نہ ملنے پر سرانجام دیا گیا تھا۔ آٹھ برس بیت گئے حصول انصاف کی امید میں،اگرکسی حد تک انصاف ہوا تو دوسری جانب لواحقین کی مایوسی اپنی جگہ برقرار ہے۔ صرف دو ملزموں کو پھانسی کی سزا جبکہ باقی پورے واقعے کی ذمے داری کس پر تھی اس کا تعین واضح نہیں ۔

ہمارے نظام عدل کی خرابیاں ابھرکر سامنے آرہی ہیں،ایک جانب تو یہ ظلم کی انتہا ہے جبکہ دوسری جانب جن کے پیارے مرگئے ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سوختہ لاشیں جو جل کر کوئلہ بن گئی تھیں۔

ان کے ساتھ مائیں لپٹ کر رو بھی نہ سکیں، شناخت ہی ناممکن تھی۔ مظلومین کو اس فیصلے کا برسوں سے انتظار تھا، یہاں بڑا اہم سوال ہے کہ یہ فیصلہ کیا لواحقین کے دکھ درد مصائب وآلام اور مشکلات میں کمی لانے کا سبب بنا ہے، کیا ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے،کئی خاندان ہیں جو واقعے میں متاثر ہوئے ہیں، کئی خاندان اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ کم از کم متاثرہ خاندانوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔

164 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے کو دیکھا جائے تو مقدمہ تاخیر کا شکار ہونے کی وجوہات میں سیاسی مداخلت، جے آئی ٹی پر عمل درآمد نہ ہونا، مرکزی ملزم متحدہ کے حماد صدیقی کی عدم گرفتاری، ملزمان کے تاخیری حربے اوردرخواستیں شامل ہیں۔ سماعت کے دوران اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ پر3 حملے ہوئے۔

استغاثہ نے 768 گواہوں کی فہرست جمع کرائی، جس میں 400 سے زائد کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ان میں زخمی، عینی شاہدین، لواحقین، ڈاکٹر، فارنزک ، کیمیکل ایکسپرٹ، فیکٹری مالکان، تفتیش کاروں سمیت دیگر افسران شامل ہیں۔

ایک طویل ترین عدالتی عمل کے بعد آٹھ سال گزرنے کے بعد کیس کا فیصلہ آیا ہے، ایکسپریس کے ایک سنیئر تجزیہ کارکے مطابق ’’ہمارا جوڈیشل کریمنل سسٹم ایسا ہے کہ جنھوں نے دنیاکے سامنے لوگوں کو زندہ جلادیا وہ موثر اور شفاف تفتیشی عمل سے بچ گئے، یہی تفتیشی افسر بیگناہوں کو ناکردہ گناہوں میں پھنسا کر زندہ در گور کردیتے ہیں،ان پر بھی کوئی ذمے داری آنی چاہیے۔

ان سے بھی باز پرس ہو۔ سسٹم کو لازماً چاہیے کہ انویسٹی گیٹرکو بھی قانون کے دائرے میںلائیں، ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں خرابیاں دور ہونی چاہئیں۔‘‘ بات تو صائب ہے اور ہمیں اس کا بات جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف تو اپیلیں اعلیٰ عدالتوں تک جاتی ہیں،لیکن اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر بھی کمزور فریق کو بااثر مخالف فریق کے ساتھ سودے بازی کرنا پڑتی ہے، جو مقدمات اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اگر اُن کا تفصیل اورگہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ان مقدمات کے پسِ منظر میں بدعنوانی کا ایک بھیانک چکر ہی نظر آئے گا۔

کمزور ترین تفتیش کا عمل شاید دنیا بھر میں ہمارے یہاں ہی ہوتا ہے کہ جہاں کیس کی تفتیش انتہائی  لگے بندھے انداز میں ہوتی ہے اور اس میں اتنے قانونی سقم رہ جاتے ہیں کہ ملزمان ومجرمان باسانی بلکہ باعزت بری ہوجاتے ہیں، لیکن جو مکمل اور صحیح چالان نہیں بناتے انہیں کوکوئی سزا نہیں ملتی،اس کو ناقص تفتیش کرنے پرکسی باز پرس پر سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جرم پر قابو پانا پولیس کی بنیادی ذمے داری ہے لیکن ہمارے یہاں پولیس جرائم پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، اگر شومئی قسمت کوئی ملزم یا مجرم پکڑا بھی جائے تو وہ ان کی کمزور تفتیش کے باعث بری ہوجاتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ محکمہ پولیس کی تقرریاں میرٹ پر نہیں ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹرانسفر پوسٹنگ کی پاور سیاست دانوں سے واپس لی جائے ، آئی جی کی پوسٹنگ کے لیے پولیس آرڈیننس میں تبدیلی لائیں، ایف پی ایس سی کے آرڈیننس میں تبدیلی لاکر آئی جی اور چیف سیکریٹری کم ازکم اِن دو عہدیداروں کی پوسٹنگ ایف بی ایس سی کا چیئرمین کرے جو پانچ سال اوتھ پوسٹ پر ہوتا ہے۔ پوسٹنگ کا مطلب ہے تین چار افراد کی لسٹ منگواکر اس میں وہ ٹک کرے کہ یہ آدمی جائے گا بطور انسپکٹر جنرل۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کرنا پڑے تو وہ کی جائے۔

جب تک آئی جی اور چیف سیکریٹری کا تقرر میرٹ پر نہیں ہوگا آپ کی حکمرانی ٹھیک نہیں ہوگی۔ بالکل اسی طرح 1122 کی کراچی میںبہت ضرورت ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کراچی میں اسٹریٹ کرائم بہت زیادہ ہیں۔

ماورائے عدالت قتل بھی ایک مسئلہ مجرم کو سزا عدالت کے ذریعے ملنی چاہیے تاکہ انصاف کا قتل نہ ہو، کسی بھی اہم ترین دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم جو ایف آئی اے، پولیس، آئی بی، آئی ایس آئی سمیت دیگر اداروں کی بنائی جائیں، اس میں بے شک عدالت کا نمائندہ شامل ہو، اور پھر عدالت کے ذریعے مہینے دو مہینے میں سزا دیں۔

کئی مثالیں ہیں جن میں قاتل چھوٹ جاتے ہیں‘ ججز کہتے ہیں کہ ’’ہم تو سزا شہادتوں پر دیتے ہیں، آپ کی شہادتیں ہی کمزور ہیں ہم کیا کریں‘‘ اس مسئلے کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ گواہوں کے تحفظ کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے لیے گواہ کو تحفظ دینا ضروری ہے، اس کی شناخت تبدیل کرنی ہوتی ہے لیکن اس بات پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ نام ہے وٹنس پروٹیکشن کا۔ اہم مقدمات کے گواہوں کو مجرم طبقہ مار دیتا ہے۔ ساتھ ساتھ وکلا کا جو کردار ہے اس میں بھی خاصی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام بنانا ہوگا کہ عام لوگوں کو سستا انصاف ملے۔

وکلا کی فیسوں میں کوئی توازن ہی نہیں، کوئی ایک لاکھ لیتا ہے تو کوئی دس لاکھ لیتا ہے، کوئی پابندی نہیں کہ آپ کی کم سے کم فیس کیا ہونی چاہیے۔ اس پر بھی کام کی ضرورت ہے تاکہ ایک عام آدمی وکیل کی خدمات حاصل کرسکے۔

وکیل کے بغیر عدالت میں کوئی بات نہیں کرسکتا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قتل کے 8 ہزار مجرم بیٹھے ہیں، ان کو سزا دیں۔ ہمارا اے ایس آئی اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان داؤ پر لگا کر تحقیق کرتا ہے، کیا اس لیے کہ یہ جیل میں بیٹھ کرکھانا کھائیں؟ جب تک ہم جزا اور سزا کے قانون پر عمل درآمد نہیں کریں گے تو مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ اور حصول انصاف میں حائل رکاوٹیں کیسے دورہونگی۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ بلدیہ سانحہ کے متعلقین اور سوختہ روحوں سے مکمل انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرے ان کی ہر ممکن مدد کی جانی چاہیے۔

The post سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mMYrFj
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment