Ads

دوحہ مذاکرات، امن کی جانب مزید پیش رفت

ہمارے خطے کی اولین ضرورت امن ہے، بالاخرانیس برس کے بعد وہ دن بھی آن پہنچا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ یہ خبرمژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے کیونکہ افغانستان میں جاری طویل ترین جنگ کے نتیجے میں پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔

اس موقعے پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے متحارب فریقوں پر زوردیا ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور ایک جامع امن معاہدہ طے کریں۔ البتہ انھوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ابھی بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ انیس برس کے بعد وہ گھڑی آن پہنچی ہے جب فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر امن کی طرف بڑھیں گے۔ معاہدے کے مندرجات کے مطابق امریکا اوران کے نیٹو اتحادی اگلے 14ماہ میں افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لیں گے۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کردیے گئے ہیں۔

امریکا کے افغانستان میں حملے سے قبل بھی افغانستان میں اقتدارکی جنگ جاری تھی اوراگر امریکا افغانستان سے نکل بھی جاتا ہے تو افغانستان میں امن کی ضمانت کون دیگا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہنوز حل طلب ہے، ماہرین کے مطابق ابھی افغان طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کی پائیداری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ قوتیں جو اس خطے میں امن کو مستحکم ہوتے نہیں دیکھ سکتیں وہ ایک بار پھر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گی۔

جس طرح بھارت کا معاندانہ رویہ ماضی میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لیے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے بعد افغانستان کے اندر فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا مستحسن عمل ہے، یہاں پر اس نقطے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے ان مذاکرات کو کامیاب دیکھنا اور فریقین کے درمیان امن ڈیل کو جنگ زدہ ملک کی مالی اعانت سے مشروط کرنا چاہتے ہیں۔اس ترغیب سے بین الافغان مذاکرات اگر کامیاب ہوجاتے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر امریکا منتخب ہونے کے لیے ان سے سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔

اس بات کو ہم امریکی خواہش تو قرار دے سکتے ہیں لیکن یہاں پر ایک دوسرا موقف بھی سامنے آتا ہے کہ مختلف ملکوں اور گروپوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں فوری طور پر جامع جنگ بندی کریں تاکہ امن عمل کو احسن طریقے سے آگے بڑھایا جاسکے، اس کے علاوہ وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک سمجھوتے پر دستخط کریں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افتتاحی نشست سے ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عالمی برادری کو بھرپورکردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے اور افغانستان میں قیام امن کے خواب کو شرمندہ تعبیرکیا جائے ہمیں ان شر پسند عناصر پر بھی نظر رکھنا ہو گی جو افغان امن عمل کو ناکام بنانے کے درپے ہیں۔

امن مذاکرات کا جو عمل دوحہ میں جاری ہے ، یہ عمل افغان قیادت کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ لاکھوں جانیںگنوانے کے بعد افغان قوم کو تقسیم کی ساری لکیریں مٹا کر اپنے کردارکا خود تعین کرنا ہو گا،ملکر دہشت گردی کے عفریت کو لگام دینا ہو گی، آگ، بارود اور خون کا یہ سیل بلا کب تھمے گا،اس کا افغانستان کی تمام متحارب قوتوں کو مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔

اس وقت افغانستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو دہشت گردوں کی دست برد سے محفوظ ہو،قاتل کا بازو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا، اس کے دل میں رحم کا جذبہ انگڑائی ہی نہیں لیتا۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ ان کی اصلاح نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔اس وقت افغان قوم بٹی ہوئی ہے،اہل سیاست تقسیم ہیں جب کہ دانشوروں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے،جب تک افغان اپنی اناؤںکو ختم کر کے ایک قوم نہیں بنتے تب تک مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔

جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ، بالٓاخر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ طاقت کے نشے میں مست قوتوں کو اس فارمولے کا بروقت ادراک نہیں ہوتا۔ احساس تب ہوتا ہے جب بے پناہ مالی وجانی نقصان اٹھا کر زخم چاٹنے پڑیں۔ امریکا جنگ شروع کرنے سے پہلے سوویت یونین کی ہزیمت وانجام سے سبق لیتا تو جنگ میں پہل کرکے لاکھوں جانوں کے ضیاع کا مرتکب نہ ہوتا۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ اسلامی ملک ہے اس کا استحکام پاکستان کا استحکام ہے۔ پاکستان کی 2640کلومیٹر طویل اور پیچیدہ سرحد مشترکہ ہے جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔

کوئی اس بات کوکیسے بھول سکتا ہے کہ طالبان کے گوریلا حملوں کے تاب نہ لا کرنیٹو افواج کا مزید قدم جمانا اور جنگ کا حصہ بننا مشکل سے مشکل تر ہو گیا تھا اور اس نے امریکا کو بیچ منجدھار چھوڑ کر2014میں افغانستان سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔ امریکا کا اس جنگ میں خلاف توقع جانی و مالی نقصان ہوا۔امریکی عوام سے حالات چھپائے گئے۔2001 سے لشکرکشی کے بعد ٹریلین امریکی ڈالر لاگت آئی اور تیسرے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جنگ میں عبرتناک شکست کی گرتی دیوارکو سنبھالا دینے کی ناکام کوشش جاری رکھی۔ اقوام متحدہ کی فروری 2020 کی رپورٹ کے مطابق2300امریکی شہریوں سمیت 3500غیر ملکی فوجی اور 3000 ہزار افغان شہری لقمہ اجل بنے۔افغان صدر اشرف غنی کے بقول 2014سے اب تک پنتالیس ہزار سیکیورٹی فورسزکے اہلکار قتل ہوئے۔

یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ افغان حکومت نے اپنی قید میں موجود طالبان جنگجوؤں کی رہائی کا عمل شروع کر دیا ہے،جس کے بعد ایک طویل عرصے سے تعطل کے شکار بین الافغان امن مذاکرات کی راہ میں موجود بڑی رکاوٹ دور ہوئی ہے۔اس وقت تک 80 طالبان قیدی رہا کر دیے گئے ہیں،یہ وہ طالبان ہیںجن پر افغان اور غیر ملکی شہریوں پر حملوں کے الزامات ہیں۔ افغان لویہ جرگے نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی تھی جن پر ’بڑے جرائم‘ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ حکام نے ابتدائی طور پر انھیں رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا،کیونکہ ان میں 44 کے قریب وہ جنگجو بھی شامل ہیں جو امریکا اور دیگر ممالک کے لیے بڑے جرائم میں ملوث  ہیں۔

افغان صدر نے بھی خبردار کیا تھا کہ ان کی رہائی دنیا کے لیے خطرہ ہے، لیکن اس کے سوا افغانستان میں امن کا کوئی اور راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ یقینی طور پر یہ رہائی ملک میں 19سال سے جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے بین الافغان مذاکرات کی ابتدا کے لیے بنیادی شرائط میں سے تھی۔اب نہ تو افغان طالبان کے پاس بین الاافغان مذاکرات شروع نہ کرنے کا کوئی عذر ہے نہ ہی افغان حکومت اب لیت و لعل سے کام لے سکتی ہے،حال ہی میں افغان طالبان کا ایک وفد پاکستان آیا تھا،جس نے پاکستان کے ساتھ کئی طرح کے معاملات پر بات چیت کی،جس میں بین الافغان مذاکرات سر فہرست تھے۔ اب یہ مذاکرات اگر امن کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ خطے کے لیے بہت بڑا بریک تھرو ہوگا اور اگر روایتی ہٹ دھرمی کا رویہ رہا تو امن کے عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا یہاں پر افغان قیادت کو فہم وفراست ، تدبر اور تحمل کا راستہ اختیارکرنا پڑے گا تب ہی مسئلہ کا پرامن حل نکل سکے گا۔

درحقیقت پاکستان شروع دن سے ہی ان کوششوں میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو، وہاں کے لاکھوں مہاجرین واپس اپنے آبائی گھروں کو لوٹیں،تاکہ پاکستان کا بوجھ بھی ہلکاہو،طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ ہم یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرسکتے ہیں کہ افغانستان سے ہمارا دینی،تہذیبی، ثقافتی، تاریخی، جغرافیائی،تجارتی اور ہمسائیگی کا رشتہ ہے۔

اس کے علاوہ ہماری دینی،اخلاقی اور سیاسی ذمے داری بھی بنتی ہے کہ ہم اس کے مسائل کے حل کے لیے کوششیں کریں، ہمارے ہمسائے ملک میں امن،سلامتی ہو گی، تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی انتہائی مثبت مرتب ہونگے۔دوحہ میں حالیہ طالبان،امریکا امن معاہدہ کے نتیجے میں یہ جنگ دنیاوی تاریخ کی لمبی، مہنگی ترین اور خون کی ندیاں بہانے والی اب ختم ہونے جا رہی ہے۔

قوی امید ہے کہ تمام افغان متحارب گروہ اس معاہدے کے دھارے میں شریک اور پاسداری کرتے ہوئے افغانستان کا پائیدار امن یقینی بنائیں گے اور ترقی کی ایک نئی جہت شروع ہوگی۔ یہ جنگ عالمی طاغوتی قوتوں کو ایک مستحکم اور دیرپا پیغام ہوگا کہ ماضی کی طرح اب بھی افغانستان کوکبھی غلامی کی زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکتا۔ بہت سے اسلامی ممالک پر جنگی جنوں اُتارنے والا امریکا ایران پر حملہ کرنے سے قبل بار بار سوچے گا،اس امن معاہدہ کے قیام میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کردار یقیناً قابل تحسین ہے۔

The post دوحہ مذاکرات، امن کی جانب مزید پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3huh7pw
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment