Ads

کوچۂ سخن

کوچۂ سخن

غزل


کی ہر سلائی میں دنیا کے خواب رکھ دیے
ماں نے مرے جہیز میں سارے عذاب رکھ دیے
ریتوں روایتوں پہ میں واری گئی بیاہ کر
شملوں نے میرے خواب بھی کر کے خراب رکھ دیے
تم لوگ کیا سمجھ سکو فطرت کا ذائقہ ہے کیا
الماریوں میں ٹھونس کر تازہ گلاب رکھ دیے
عمرِ رواں نے میز سے خوشبو،گلاب اٹھا لیے
کڑوی کسیلی گولیاں،عینک، خضاب رکھ دیے
اک ساتھ میری آنکھ کا سارا چناب پی گیا
اور ایک یاد نے مری روح میں عذاب ر کھ دیے
(شمامہ افق۔ راولپنڈی)


غزل


تھا خود سے دور کسی دشت میں پڑا ہُوا میں
تجھے ملا تو محبت سے آشنا ہوا میں
نکل پڑا ہوں کسی بے نشان منزل کو
فنا کے دشت میں سائے کو ہانکتا ہوا میں
تمہیں خبر بھی ہے کن جنگلوں میں جا نکلا
تمہارے بارے پرندوں سے پوچھتا ہُوامیں
اسے بچاؤ یہ ساحل پہ چیختی ہوئی وہ
مجھے بچاؤ یہ دریا میں ڈوبتا ہوا میں
بھرے جہان سے رختِ سفر سمیٹتا ہوں
مرے شعور کے ریشے ادھیڑتا ہوا میں
(ذیشان مرتضٰی۔ ڈیرہ اسماعیل خان)


غزل
نشاطِ دل کو ہے کافی تمنا
نہیں ہوتی مگر پوری تمنا
غمِ دوراں سے فرصت ہی نہیں ہے
کہاں کی حسرتیں کیسی تمنا
وہاں وہ ہیں گریزانِ عنایت
یہاں میں ہوں،مری ضدی تمنا
مری ہستی کی بکھری کترنوں پر
بجاتی تالیاں، ہنستی تمنا
ترے در پر پڑی ہے اب تلک کیوں
یہ لاحاصل، مری پگلی تمنا
مرے گھر کے مکیں ہیں تین لاشے
خموشی، میں، مری اجڑی تمنا
(صائمہ جاوید۔ کہوٹہ)

غزل
ہم نے تو کس کر باندھا تھا کچا دھاگہ ٹوٹ گیا
پکی مٹی کا تھا لیکن، تھا تو پُتلا، ٹوٹ گیا
اُس کے دل پر کیا گزرے گی میرے دل کو کیا معلوم
میں نے تو بس اتنا لکھا تھا کہ شیشہ ٹوٹ گیا
یک طرفہ چاہت تھی اُس پہ رنجش بھی یک طرفہ تھی
ہم لوگوں کو دیکھو جن کا آدھا چہرہ ٹوٹ گیا
قطرہ قطرہ مِل کر دریا بننے کی تو سُنتے تھے
کل ہم مِل کر اتنا روئے قطرہ قطرہ ٹوٹ گیا
کہنے کو تو کافی باتیں تھیں، کافی تمہیدیں تھیں
وہ بس اتنا ہی کہہ پائی، جاؤ رشتہ ٹوٹ گیا
رہگیروں سے لگ کر گِھستا رہتا ہوں لیکن کل شب
آئینے میں دیکھا، میں تو اچھا خاصا ٹوٹ گیا
(احمد شہباز۔ چوا سیدن شاہ، چکوال)


غزل


خواب میں اک تماشہ تھا ہم سو لیے اور کچھ بھی نہیں
بس گھڑی دو گھڑی ہنس لیے رو لیے اور کچھ بھی نہیں
ہاتھ آ ئے گا لا حاصلی کے سوا اور کیا دیکھنا
یہ ہے گٹھڑی شب و روز کی کھولیے اور کچھ بھی نہیں
بچھ گئی ہیں جو ویرانیاں ہر طرف آ ن کی آ ن میں
اک بلا کے جو یوںہم سر ہو لیے اور کچھ بھی نہیں
یہ جو چہروں پہ پانے لگی ہے نمو فصل آ زردگی
کشت جاں میں نہ ہونے کے غم بو لیے اور کچھ بھی نہیں
گرد الود ہے کچھ دنوں سے فضا ختم ہو جائے گی
کھڑکیاں اور دروازے مت کھولیے اور کچھ بھی نہیں
(احمد امتیاز۔ کراچی)


غزل


ادھورا شوق ہے اظہار نامکمل ہے
تمہارے ہوتے بھی یہ پیار نامکمل ہے
کچھ آپ بھی تو تقاضا کریں دلیل کے ساتھ
بنائوں در کہاں دیوار نامکمل ہے
تمہاری جیت مکمل نہیں ہوئی مرے دوست
اگر یہ سچ ہے مری ہار نامکمل ہے
اک اور بار ابھی توڑنا ہے میرا غرور
میں جانتا ہوں کہ انکار نامکمل ہے
تو ختم کرنا پڑا ہے ولی کے دل سے راج
کہا بھی تھا مری سرکار، نامکمل ہے
(شاہ روم خان ولی۔ کراچی)


غزل
میری چاہتوں کے حسین پل شب ِ انتظار میں لگ گئے
تھے جو چند سکّے امید کے ترے اعتبار میں لگ گئے
ترے ہجر میں ،تری یاد میں، بڑی موج تھی، بڑے عیش تھے
کبھی گھوڑے بیچ کے سورہے کبھی اضطرار میں لگ گئے
وہ جو پہلی صف میں رکھے تھے تو نے وہی تو تجھ کوعزیز تھے
مگر اس کے بعد جو آئے تھے وہ سبھی قطار میں لگ گئے
تجھے کیا خبر ترے غم زدوں کا نہ کچھ بچا اے گریز پا
وہ جو سبز رو تھے بکھر بکھر اِسی ریگزار میں لگ گئے
وہ جو ظلم کرتے نہ تھکتے تھے انہیں ضرب ایسی کڑی لگی
وہیں ماس چھوڑا شکار کا ،وَہیں پیار پیار میں لگ گئے
وہی تیز دھار منافرت جو اکھاڑ پھینکتی جڑ مری
وہ جو تیر جیسے حروف تھے دل ِ بے قرار میں لگ گئے
(حنا عنبرین۔کروڑ لعل عیسن، لیہ)


غزل
تو نے تو جھیلا ہے بے آب و گیاہ کا دکھ
آ مجھ سے بانٹ لے میری خیمہ گاہ کا دکھ
اعصاب کی جراحت میں محو رہنے والے
سمجھے نہیں کبھی بھی قلب و نگاہ کا دکھ
آنسو قطار میں بہنا ہی دلیل ہے کہ
دل کو لگا ہوا ہے اک بادشاہ کا دکھ
موقع پرست راہی نے راہ کھود ڈالی
شیریں کے غم زدہ کو کب تھا پناہ کا دکھ
یہ بے کواڑ گھر کی دل سوز تعزیت ہے
تم کیوں سمجھ رہے ہو شہر ِ تباہ کا دکھ
کیا خوب رائگانی میں نام ور ہوا میں
سب لوگ سن رہے ہیں بخت ِسیاہ کا دکھ
خوش فہمیوں میں لپٹے سمجھوتے کی زباں میں
ساگر کہو سبھی سے اپنے نباہ کا دکھ
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)


غزل


باتوں کے سب تیر چلادوں؟ بالکل نئیں
اپنے دل کا حال سنا دوں بالکل نئیں
لوگ مجھے بھڑکاتے ہیں تو پھر کیا میں
اپنے گھر کو آگ لگادوں؟ بالکل نئیں
بھائی جو ناراض ہے مجھ سے تو کیا میں
آنگن میں دیوار اٹھا دوں؟ بالکل نئیں
سب نے تجھ کو جی بھر کے برباد کیا
میں بھی تیرے ہوش اڑا دوں؟ بالکل نئیں
حرص، ہوس اور عیش کی خاطر کیا احمدؔ
میں اپنا ایمان لٹا دوں؟ بالکل نئیں
(احمد حجازی۔ لیاقت پور)


غزل


مرشد کسی کے قدموں سے انعام ہو گیا
مرشد ہمارے در کا بڑا نام ہو گیا
مرشد ہماری چاہتیں سب رائیگاں گئیں
مرشد ہمارا کام تو تمام ہو گیا
مرشد ہمارے گاؤں میں کیا ماجرا ہوا
مرشد یہاں کا معتبر بدنام ہو گیا
مرشد ہمارا حال بھی تو دیکھ لیجیے
مرشد یہاں تو عشق بے لگام ہو گیا
(حسین رمضان۔گوجرانوالہ)


غزل


جب کسی آدمی سے ملتا ہوں
سادگی ،خوش دلی سے ملتا ہوں
رات کو اوڑھ کر سیاہ چادر
اس حسیں روشنی سے ملتا ہوں
دل میں ہوتے ہیں وسوسے پیدا
جب کسی اجنبی سے ملتا ہوں
سبز رت کی طرح نکھرتا ہوں
شاخ جس دم ہری سے ملتا ہوں
مثلِ صحرا ہے تشنگی میری
اس لیے میں ندی سے ملتا ہوں
(محمد اختر سعید۔ جھنگ)


غزل


کرو محنت اُسی خاطر جو اصلی زندگانی ہے
جہاں کیسٹ اِنہی اعمال کی دہرائی جانی ہے
’’سمندر! یہ بتا کس بات پر مغرور ہے اتنا؟
روانی ہے تری اپنی، نہ تیرا اپنا پانی ہے
تری ہیبت سے ڈرتے ہیں جو تیرے بیچ رہتے ہیں
یہ چھوٹے جتنے نالے ہیں سب ان کی مہربانی ہے‘‘
سنا ہے ظرف اونچا ہے دری پر بیٹھتا ہے وہ
علاماتوں سے لگتا ہے کہ بندہ خاندانی ہے
جہاں دیکھوں وہاں تا دورمجھ کو سر نظر آئیں
ابھی ایسی غزل میں نے وہاں پر بھی سنانی ہے
یقینا سین ؔتیری شاعری ہو گی شہید اک دن
نہیں سادہ غزل،غزلوں کی یہ’’ برہان وانی‘‘ ہے
(سعد سینؔ۔ لاہور)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bTWfqp

via Blogger https://ift.tt/2FiB2L8
September 12, 2020 at 10:59PM
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment