پشاور کے لوگ بھی کمال کے لوگ ہیں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً یہ عجیب بھی ہیں اور غریب بھی ہیں بلکہ آج تک یہ پتہ ہی نہیں چل سکا کہ عجیب کتنے ہیں اور غریب کتنے۔ یا یہ کہ عجیب سے زیادہ غریب ہیں یا غریب سے زیادہ عجیب ہیں۔ بلکہ یہ کہیے کہ عجیب ہیں اس لیے غریب ہیں۔
اور غریب ہیں اس لیے عجیب بھی ہیں۔ ایک طرف یہ اپنی غربت کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں تو دوسری طرف عجائب کا نقارہ بھی بجاتے ہیں۔ کھود کھود کر دنیا بھر میں پشاور کے ’’فرزند‘‘ ڈھونڈتے ہیں اور پھر ان پر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے رہتے ہیں۔
یوں تو ہر کیٹیگری میں پشاور کے فرزندوں یا فرزندان پشاور کا بول بالا ہے جہاں جہاں کوئی بڑا نام لیتا ہے اس کا تعلق پشاور ہی سے نکل آتا ہے بلکہ اگر کوشش کریں تو ٹرمپ جو بائیڈن، مودی، اردگان کا تعلق بھی پشاور سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ مہاتیر محمد کا تعلق بھی پشاور سے تھا۔ اور سوئیکارنو کا بھی ۔ آج کل ایک اکیڈمی میں ایک طالب علم، پشاور اور ’’مائیکل جیکسن‘‘ کے موضوع پر مقالہ تیار کر رہا ہے شکسپئر تو تھا ہی شیخ پیر۔ ہمیں تھوڑا تھوڑا سا یاد ہے کہ انجلینا جولی بھی جلوزئی مہاجر کیمپ میں آئی تھی۔ تو چاروں طرف دیکھ کر اس نے کہا تھا۔ مجھے لگ رہا ہے جیسے میں اپنے گھر آئی ہوں
میرا تجھ سے پہلے کا ناتا کوئی
یوں ہی نہیں دل کو لبھاتا کوئی
بعض رشتے وقت کے ساتھ ساتھ مدہم پڑ جاتے ہیں مثلاً ایک مرتبہ افریقی ملک کے ایک صدر نے برطانیہ کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا انگریزوں سے خون کا رشتہ ہے۔ بعد میں کسی صحافی نے اس سے پوچھا کہ کیسا رشتہ؟ تو اس نے رازداری سے بتایا کہ بہت پہلے میرے اجداد نے ایک انگریز پادری کو کھایا تھا۔
خیر پشاور کے فرزندوں سے یوں تو دنیا بھری پڑی ہے لیکن ’’فلمی دنیا‘‘ تو خاص طور پر قابل ذکر ہے پچھلے دنوں ایک صاحب نے اخبار میں لکھا تھا کہ برصغیر کی فلم انڈسٹری میں 25 فیصد فرزندان پشاور کا حصہ ہے پھر اس نے دلیپ کمار اور شاہ رخ کا آموختہ دہراتے ہوئے بہت سارے نام لکھے جن میں راج کپور بلکہ پورے کپور خاندان یا سارے ’’کپوروں‘‘ کا ذکر تھا۔ ان سب کو سن کر ہمارے ٹیڑھے دماغ میں یہ ٹیڑھ کلبلانے لگی کہ شاید پشاور کے پانی میں کچھ ایسا ہے کہ جو یہاں رہتا ہے کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن اس عزلت آباد سے نکلتے ہی ہرا بن جاتا ہے۔
ہے وطن سے باہر اہل دل کی قدر و منزلت
عزلت آباد صدف میں قیمت گوہر نہیں
گویا عزلت آباد صدف عرف پشاور میں ہی سارا چکر ہے کہ یہاں رہتے ہوئے ’’راکھ‘‘ میں چھپا ہوتا ہے اور راکھ سے نکلتے ہی لعل ہو جاتا ہے۔ پشاور والوں کو اس معاملے میں سنجیدہ ہو کر کچھ کرنا چاہیے بلکہ ہمارا تو ان کو دوستانہ مشورہ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے پشاور چھوڑ دیں۔ ورنہ۔ تمہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ دلیپ کمار کو دیکھو اس غم کدے سے نکل کر کیا بنا، میوہ چلغوزے بیچنے والا شاہ رخ خان بن گیا۔ اور شہر شہر تمبو میں ڈرامے کرنے والے کپورے کیا بلکہ کیا کیا بن گئے۔ ثابت یہ ہوا کہ پشاور کی مٹی میں یا پانی میں کوئی دوش ہے یوں کوئی ’’اپ شگن‘‘ کہ ہیرے یہاں پڑے پڑے کنکر بن جاتے ہیں اور کنکر پتھر باہر نکل کر ہیرے موتی بن جاتے ہیں۔ یہ کوئی مسخرگی کی بات نہیں بلکہ نہایت ہی سنجیدہ بلکہ رنجیدہ مسئلہ ہے۔
آخر یہاں رہ کر کوئی فرزند، فرزند پشاور کیوں نہیں بنتا۔ کچھ تو ایسا ضرور ہے جو پردے میں مستور ہے اور پشاور والوں کے لیے ناسور ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ہم جو اتنے بڑے محقق اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور بڑی بڑی اکیڈمیوں اور اداروں کے ڈگری یافتہ ہیں خود یہ تحقیق کیوں نہیں کرتے کہ آخر پشاور کی آب و ہوا میں ایسا کیا ہے جو فرزندان پشاور کو یہاں ’’پنپنے‘‘ نہیں دیتا یا دیتی۔ ہمارا مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم بھی پشاور میں ہیں اور جن اکیڈمیوں اور اداروں سے ہم نے ڈگریاں لی ہیں وہ بھی یہاں پشاور یعنی اس مٹی اور آب و ہوا میں ہیں۔ یعنی ’’کان نمک‘‘ میں نمک ہیں۔ یا یوں کہیے کہ عزلت آباد صدف میں ہیں تو کارنامہ کیسے دکھائیں۔ ہاں البتہ:
پھر دیکھیے اندازگل افشانی گفتار
لے جایے کوئی مجھ کو بہت دور یہاں سے
پشاور والوں کی اس حالت کو دیکھ کر ہمیں اکثر اپنے گاؤں کا غفار یاد آ جاتا ہے وہ دنیا بھر کا بھوکا ننگا اور تقریباً بھکاری تھا۔ لیکن جب بھی بات کرتا تھا اپنے نامور اجداد کی کرتا تھا یا شہر میں اپنے رشتے داروں کی۔ کوئی کہتا کہ فلاں وزیر۔ تو فوراً اس وزیر کا نک نیم لے کر۔ اچھا فلاں۔ وہ تو میرا اپنا آدمی ہے میری سگی پھوپھی کی نند کے داماد کا بہنوئی ہے۔ اچھا فلاں ڈی آئی جی۔ وہ تو میرے دادا کے بیٹے کے ماموں کا سگا نواسہ ہے اپنا آدمی ہے۔
کعبے کی ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں میری مٹی کہاں کی ہے
فرزندان پشاور زندہ باد اور مدح سرائیاں پشاور؟
عالم ہمہ افسانہ مادارو ما ہیچ
ویسے ہمیں تو فرزندان پشاور سے زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ کرینہ کپور، کرشمہ کپور، سلینا جیٹلی۔
The post فرزندان پشاور appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3nNGupB
0 comments:
Post a Comment