جمعرات کو کابل کے صدارتی محل میں وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے فوری اقدامات کے عزم کا اعادہ کیا۔ پاکستان اور افغانستان نے پڑوسی ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تناظر میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سمیت باہمی تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں تیزکرنے پر اتفاق کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے قطر امن معاہدے کے باوجود افغانستان میں تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور افغان حکومت کو پاکستان کی طرف سے افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے تعاون اور جنگ بندی کے سلسلہ میں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔
وزیراعظم نے یہ فکر انگیز سوال کیا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی کس طرح مدد کر سکتا ہے۔ اس پر صدر اشرف غنی کے پاس بلاشبہ جو جواب ہونگے ان کی روشنی میں پاک افغان تعلقات کی ایک نشیب و فراز سے معمور تاریخ پر نظر ڈالی جا سکتی ہے لیکن سوال کے ہر جواب میں خطے کی دردناک صورتحال کا تعلق افغان طالبان سے ناگزیر ہے، اب تک افغانستان میں جس سیاسی بحران نے قدم جمائے، اس میں افغان انتظامیہ، طالبان اور امریکی جنگی اسٹرٹیجی کی بے سمتی اور افغان امن عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔
خطے میں کئی سیاسی بریک تھرو ہو سکتے تھے اگر افغان امن صورتحال کو غیر مشروط بات چیت اور داخلی عدم استحکام کے پھیلے ہوئے عفریت سے پاک کر لیا جاتا، افغان عوام کے مستقبل کی کثیر جہتی بات میز پر بیٹھ کر کی جاتی تو پاکستان، افغان، امریکا اور طالبان ایک بڑے اتفاق رائے اور پائیدار امن معاہدہ کی حتمی منزل تک ضرور پہنچ جاتے، لیکن افغان سیاست کا المیہ تھا کہ اسے امن کی راہ میں بے پناہ مسائل کا سامنا رہا۔
خطے میں ناقابل یقین تبدیلیوں، جنگ کی تباہ کاریوں، طالبان کے حملوں اور فیوڈل لارڈز کی کشمکش، سیاسی تناؤ، دھڑے بندیوں، عالمی قوتوں کی افغان امن عمل میں ٹارگٹ کے قریب آ کر پسپائی کا سامنا ایسے واقعات نے در حقیقت ایک عالمی اعصابی گمبھیرتا کو جنم دیا جس میں مکالمہ، ڈائیلاگ اور پُر امن معاہدوں پر دستخط کے مرحلے آئے ضرور مگر وہ نقش بر آب ثابت ہوئے۔
اب امریکی افواج کے انخلا کا مسئلہ ہے، اس پر دنیاکو سوچنا ہو گا، اس ساری کہانی میں پاکستان کا امن کے قیام کا صائب کردار کبھی ماند نہیں پڑا اور آج بھی جب وزیر اعظم عمران خان نے صدر اشرف غنی سے استفسار کیا تو وہ یہی تھا کہ بتائیں پاکستان آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے، امن کے مخلص سہولت کار کی صورت میں۔ امریکا سے طالبان کی ہونے والی کئی مرحلوں کی قطر بات چیت ایک الگ کہانی ہے۔
صدر ٹرمپ نے افغانستان کے امن معاملات میں کیا کھویا اورکیا پایا ، اب اس کہانی کا دوسرا رخ امریکی انتخابات نے طے کرنا ہے، دنیا کی طرح افغانستان اور پاکستان بھی ٹرمپ، جوبائیڈن، اندرونی سماجی، سیاسی اور قتصادی حالات کے تناظر میں اہم فیصلوں کے منتظر ہیں۔ افغان حکومت کو اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کے آپشنزسمیت افغان عوام کو درپیش سماجی، عسکری، اقتصادی اور تزویراتی امور میں پیش قدمی کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم اعتماد سازی کے لیے افغان حکومت کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ انھوں نے افغان صدر کو تشدد میں کمی کے لیے بھرپور مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے بعد وہاں امن میں دلچسپی رکھنے والا سب سے پہلا ملک ہے کیونکہ افغانستان میں امن ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے جو اب ضم ہو کرخیبرپختونخوا کا حصہ بن گئے ہیں، بھی دہشتگردی سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان اور افغانستان کے مابین تاریخی روابط اور برادرانہ تعلقات کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے60 اور 70 کی دہائی کا ذکر کیا جب کابل اور پشار دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے پسندیدہ مقامات تھے۔ وزیر اعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہارکیا کہ افغانستان کے شہریوں کو گزشتہ چار دہائیوں سے تشدد کا سامنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ افغانستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان مشترکہ نظریہ کے عنوان سے ایک دستاویز بھی جاری کی گئی ہے۔
دستاویز جاری کرنے کا مقصد پاکستان اور افغانستان سمیت خطے میں امن واستحکام پیدا کرنے کی کوشش ہے۔مشترکہ نقطہ نظرکا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، معاشی اورعوامی رابطے آگے بڑھانا ہے۔اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور افغانستان نے سلامتی اور امن سے متعلق امورکو آگے بڑھانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون مستحکم کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کی قیادت کے تبادلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان نے یونیورسل چلڈرن ڈے 2020 پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حکومت اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت بچوں کی ترقی، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، ان کے وقار اور سلامتی کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے، مختلف اقدامات کے ذریعے قانون کی حکمرانی اور معاشی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے امن و استحکام کے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں حکومتوں کے نمایندوں پر مشتمل کمیٹیوں کے قیام کی حمایت کی اور کہا کہ دونوں ممالک کی کمیٹیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین قریبی تعاون سے امن و استحکام کا مؤثر حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔
وزیر اعظم عمران خان جو پہلی بار افغانستان کے دورے پرگئے ہیںکی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے، بین الافغان امن عمل اور علاقائی اقتصادی ترقی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کے دورے کو اعتماد اور تعاون میں اضافے کے لیے اہم قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری مشترکہ توجہ غربت کے خاتمے اور اپنے عوام کو با اختیار بنانے پر ہو گی۔ اشرف غنی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان تشدد کے خاتمے میں مدد دینے کے اہم پیغام کے ساتھ آئے ہیں۔ مشترکہ تعاون کے فریم ورک کے تحت پائیدار امن جامع جنگ بندی کے لیے ضروری ہے۔
سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، تشددکسی مسئلہ کا حل نہیں۔ وزیر اعظم عمرا ن خان کے دورے سے آج اعتماد کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ہم پائیدارامن کے لیے سفر جاری رکھیں گے۔ اسلامی جمہوریہ افغانستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان مشترکہ نظریہ کے عنوان سے ایک دستاویز بھی جاری کی گئی ہے۔ دستاویز جاری کرنے کا مقصد پاکستان اور افغانستان سمیت خطے میں امن واستحکام پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
افغان صدر نے کہا کہ وزیر اعظم عمرا ن خان سے ملاقات میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ حضور نبی کریمؐ کی ناموس ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور دنیا کو آزادی اظہار رائے کے حوالے سے منفی اور مثبت رویوں کی تفریق کرنا ہو گی۔
ہم اپنی روایات، تہذیب و تمدن اور ناموس رسالتؐ کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے انفرااسٹرکچر، توانائی منصوبوں میں تیزی لانے اور نئے ریل روڈ منصوبوں پر اتفاق کیا ہے۔ افغان صدر سے ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جمہوری، خود مختار افغانستان کے لیے پاکستان اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے خبردار کیا کہ کچھ لوگ امن کی کوششیں خراب کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں افغان مہاجرین کی فوری وطن واپسی کی عملی کوششوں پر بھی سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے، جو عناصر امن کی خرابی چاہتے ہیں ان کے عزائم کو ناکام اسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے کہ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے دو طرفہ مربوط اور شفاف اقدامات کیے جائیں۔
The post وزیراعظم کا دورہ افغانستان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3m3AkRK
0 comments:
Post a Comment