Ads

شہروں کی تقدیر بدلنے کی ضرورت

عالمی مالیاتی تحقیقی اور ابلاغی ادارے بلومبرگ نے کراچی میں تباہ حال سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بدترین صورتحال کی بنا پر کراچی کو سیاسی یتیم قرار دے دیا۔

بلومبرگ نے اپنی سٹی لیب رپورٹ میں کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کی زبوں حالی اور سڑکوں کی صورتحال سمیت نامکمل منصوبوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا تیسرا بڑا شہر اس وقت سیاسی طور پر یتیم ہوجانے والے ایسے شہر کی تصویر پیش کر رہا ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔

حقیقت میں اس ’’شہر آشوب‘‘ میں صرف کراچی ہی کو کوئی منفرد حیثیت حاصل نہیں بلکہ دیکھا جائے تو پاکستان کے جن شہروں کو قیام پاکستان سے پہلے فطرت کے حسن اور اربن پلاننگ میں خصوصی شناخت حاصل تھی ان کی بھی حالت زار کے قصے میڈیا بیان کر رہا ہے، دو عشرے قبل لاہور میں موٹرویز، پارکس، شجر کاری اور کشادہ سڑکوں کے باعث لاہور کی صورت بدل گئی تھی پھر شہر میں سفری سہولتوں میں جدید اورنج ٹرین متعارف ہونے کے قریب تھی کہ بعض مسائل اور طبیعاتی رکاوٹوں کے باعث اسے معطل کرنا پڑا، اب جاکر اس منصوبہ پر عملدرآمد ہوا ہے۔

اسی طرح 60 کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے نے کام شروع کر دیا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کا وجود بھی ٹرانسپورٹ مافیا نے خطرے میں ڈال دیا تاہم سپریم کورٹ کی دلچسپی، شہریوں کو درپیش سفری دشواریوں کے پیش نظر وزارت ریلوے، سندھ حکومت اور وفاق کو اس منصوبہ کی ہر قیمت پر تکمیل کا ایک ٹارگٹ دیا گیا لیکن اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ ماس ٹرانزٹ پروجیکٹ پر عمل کرنے کے اہداف سے لے کر مخدوش اور غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر، تجاوزات، درختوں اور جنگلات کے کٹاؤ اور پارکوں کی حالت زار تک معاملات تباہی سے دوچار ہیں۔

شہروں کو مسائل کے انبار کا سامنا ہے، آلودگی، فنڈز کی کمی یا کرپشن نے عروس البلاد کراچی کو موئن جو دڑو جیسا کھنڈر بنا دیا، گزشتہ مون سون بارشوں نے کراچی کو ناقابل بیان تباہی سے دوچار کیا اس پر حکومت اور ذمے دار ادارے نہ صرف بے نقاب ہوئے بلکہ کراچی بربادی، اربن پلاننگ میں انحطاط اور غلاظت و کوڑے کے ڈھیر کا ایک انٹر سٹی حوالہ بن گیا۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے شہر قائد کی خوبصورتی اور شہری مسائل کے حل کے لیے ایک سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا جس پر شادیانے بجائے گئے لیکن کافی دن گزرنے کے بعد بھی سیاسی محاذ آرائی نے کراچی کی تقدیر بدلنے کی طرف حکمرانوں، سٹیک ہولڈرز اور اربن ماہرین کو متوجہ نہیں کیا۔

بے حسی غیر جمہوری طرز عمل اور اقتصادی، سماجی عدم توجہ کے سبب ابتری مزید بڑھ گئی اور ترقی اور تزئین وآرائش کے جن پروجیکٹوں کو جلد شروع کرنے کی ضرورت تھی ان کی تکمیل کے لیے ارباب اختیار نے ایکشن نہیں لیا جب کہ سیاسی تناؤ میں شہر کا نقصان ہوتا رہا، لوگ کراچی کی بربادی پر بے حد دل گرفتہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نہ جانے شہر سے کون سا انتقام لیا جا رہا ہے۔

ٹرانسپورٹ کے حوالہ سے رپورٹ کے مطابق بندرگاہ کو شہر کے وسط سے ملانے والا ایم اے جناح روڈ جو ہمیشہ ٹریفک کی روانی میں اہم کردار ادا کرتا رہا اب مستقل بدترین ٹریفک جام کا شکار رہتا ہے۔ کراچی میں پبلک بسوں پر مشتمل ایکسپریس لین کا منصوبہ جو شہر کے بڑے حصے سے ہوکر گزرتا ہے تین سال کی تاخیر کے باوجود ادھورا پڑا ہے۔

اس منصوبہ کے لیے مختص ایک بالائی گزرگاہ شہر کی اہم سڑکوں کی تین میں سے دو ٹریفک لینز بھی نگل چکا ہے۔ اس بات پر دو رائے نہیں کہ کراچی کی تباہی ایک سانحہ سے کم نہیں، اس شہر کو ایشیا کے خوبصورت شہر کا اعزاز حاصل رہا ہے، اس کے مخیر میئرز نے انسان دوستی اور خدمت خلق کے بے مثال نظائر پیش کیے، یہ بندہ نواز شہر تھا مگر آج اسے صرف کورونا نے نیم جان نہیں کیا بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر شہر قائد کو ایک بڑی قلب ماہیت چاہیے۔

یہ بلاشبہ غیر انسانی inhuman صورتحال سے دوچار ہے اور دیگر شہروں سے قطعی مختلف بھی نہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ سیاسی مائنڈ سیٹ، سیاسی ارادے کی کمی اور ٹھوس حکمت عملی کی عدم فعالیت کا ہے، ایک غیرجانبدارانہ تقابلی جائزہ ملک کے اربن تناظر کی افسوسناک منظر نامہ کی قلعی کھول سکتا ہے، اگر عوام کو جنگلات اور درختوں کے کٹاؤ سے آگاہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ماحولیاتی، بحری اور فضائی آلودگی کتنی شدت اختیار کرچکی ہے۔

وفاقی حکومت نے راوی سٹی اربن پروجیکٹ کی بنیاد آلودگی کے خاتمہ سے منسلک کی تھی، مگر ہاؤسنگ سوسائٹیاں آلودگی کا تھریٹ بن چکی ہیں، اسلام آباد میں عدلیہ گندگی کا نوٹس لینے پر مجبور ہوئی، مری کی شفاف فضا کو آلودگی کے وائرس نے جکڑ لیا ہے، جون کے مہینے میں وہاں پنکھے چلتے رہے، لکڑی مافیا نے قیمتی درخت بڑی بیدردی سے کاٹے، صنوبر اور شیشم کے درخت بھی نہیں بچ سکے، جنگلی حیات کی نسلیں نایاب ہوگئیں، کوئٹہ، خیبرپختونخوا میں آلودگی بڑھ گئی ہے۔

بی آر ٹی کی بسیں سڑک پر لائی گئیں مگر کچھ نے آگ پکڑ لی، اور دو ایک راستے میں خراب ہوگئیں، حکومت نے ملین درخت لگانے کی بات کی، اچھی بات ہے، بلوچستان میں کراچی سے کوئٹہ، گوادر، تربت اور اورماڑہ تک نجی لگژری بسیں چلتی ہیں مگر عوام کے لیے پبلک انٹر سٹی سروس شروع نہیں ہوئی،  کراچی میں آج بھی ٹرانسپورٹ کا نظام عوام کو سبک رفتار، آرام دہ اور جدید شہری سہولتیں نہیں دے سکا۔

گندے نالے لبالب بھرے ہوئے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے شہری حالت اضطراب میں رہتے ہیں اور اس کا بنیادی سبب بدترین اور غیر انسانی ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔ کراچی کے شہریوں کو یاد ہے کہ اس عروس البلاد میں انھوں نے ٹراموں اور ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا، سوئیڈن اور جرمنی سے بسیں آئی تھیں۔

تاہم سوال محض ملک کے بڑے شہروں کی زمینی، فضائی اور اربن آلودگی کا نہیں بلکہ یہ سیاسی بے اعتنائی، بیوروکریسی کی عدم جوابدہی اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کی فکری لاابالی  کا بھی ہے۔ ملک کی دیہی آبادی کے مسائل کا پینڈورا بکس کھل جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ زرعی معیشت کی لاوارثی کے ذمے دار اہل سیاست ہی ہیں۔

اس لیے کہ کسی کسان کی زندگی نہیں بدلی، اس کے شب وروز کی بہتری کے لیے ملک کو جس انسان دوست مائنڈ سیٹ کی ضرورت ہے موجودہ سیاسی اسٹرکچر میں مروت، یکجہتی، ایثار اور اخلاص کا ایسا خزانہ شاید ہی مل سکے، لہٰذا ضرورت ایک ایسے سیاسی اور معاشی نظام کی ہے جو ملکی معیشت، سیاست، تجارت، سفارت اور ماحولیات کی کایا پلٹ دے، حکومت اپنی توانائی، توجہ اور صلاحیتوں کو شہریوں کی مکمل آسودگی کے لیے وقف کردے۔ آج سیاست میں انسان دوستی، تدبر، اور ایثار کے ساتھ ساتھ دلیرانہ فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

ہم کو تو انتظارِ سحر بھی قبول ہے

لیکن شبِ فراق ترا کیا اصول ہے

(قتیل شفائی)

The post شہروں کی تقدیر بدلنے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3k0Qr0U
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment