وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اپنے جلسوں کے تسلسل پراصرارکے ذریعے عوام اور ان کی معاش، جان بوجھ کرخطرے میں ڈال رہی ہے۔
اتوارکو اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وباء کی دوسری لہر کے اعداد وشمارتشویشناک ہیں۔ گزشتہ پندرہ روز میں وینٹی لیٹرزکے محتاج مریضوں کی تعداد پشاور اور ملتان میں 200 فیصد،کراچی148، لاہور 114 اوراسلام آباد میں 65 فیصد بڑھ گئی ہے۔اسلام آباد اور ملتان کے70 فی صد وینٹی لیٹرز زیرِاستعمال ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ فی الوقت پوری دنیا کورونا کی دوسری لہرکی زد میں ہے اور بیشترممالک مکمل لاک ڈاؤن عائدکرچکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا کورونا کی وبائی ہلاکت خیزی سے ایک شدید اعصابی بحران کا شکار ہے اور سیاسی ماہرین سمیت دانشور اور سفارتکار بھی کورونا وائرس سے نمٹنے کی عالمی کوششوں میں اہم سوالات اٹھانے لگے ہیں۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی حقیقت جمہوریت اور طرز حکومت کی بحث سے آگے نکل چکی ہے، وبا کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے تجربات میں سسٹم میںگورننس کی حقیقت، اس کے معیار اور عوام کی استقامت کو بھی سامنے لایا جا رہا ہے، مسئلہ کورونا کے علاج اور وبائی اثرات کے ساتھ ساتھ عالمی تبدیلیوں کا بھی ہے، دنیا کو دیکھنا ہوگا کہ کورونا سے نمٹنے کے تجربات سے حکومت وریاست کوکیا سبق ملا ہے، حکومتوں نے کیا شعوروادراک کا سبق حاصل کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا نے تحقیق کے کئی درکھولے ہیں، اس سوال پر غوروفکر جاری ہے کہ کورونا کیا محض ایک وبا،ایک ذمے داری،گورننس کے حوالے سے حکومتوں نے سیاست،صحت، انسانی مستقبل کے ضمن میں ہمارا رویہ کیا رہا ہے، پاکستان بھی اس علمی بحث سے الگ نہیں ہے، کیونکہ حکومت کورونا سے برسرپیکار ہے، اسے اپوزیشن کی مزاحمتی جدوجہد کا بھی سامنا ہے۔
وزیراعظم نے کورونا کی مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے سیاسی جلسوں سے پیدا شدہ صورتحال پر واضح بیان دیا ہے جو کورونا سے نمٹنے کے معاملات سے جڑا ہوا ہے اور ان سوالوں کے جواب اسے بھی چاہئیں جن پر عالمی ماہرین، دانشور اور سفارت کار بحث کررہے ہیں۔
سب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ملکی سیاست ہیجانی کیفیت میں ہے، سیاسی اپوزیشن رہنما بقول ان کے ملکی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، دوسری طرف حکمران انھیں سیاسی جلسوں سے انسانی صحت کے لیے بڑا خطرہ قراردے رہے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ کورونا کا سیاق وسباق سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، ہر حکومت انسانی جان کے تحفظ کی کوشش میں ہے، مگر ماہرین کا درد انگیز تجزیہ یہ ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے حکومتی ، جمہوری اور ریاستی تقاضے بھی پیش نظر رہنے چاہئیں۔
ان کا کہنا یہ ہے کورونا سے نمٹنے کے معاملات میں سوال صرف جمہوریت کا نہیں امریکن حکومت،ریاست اور رویے کا ہے، ان کا نقطہ یہ ہے کہ ساری حکومتیں کورونا سے درست طریقہ سے نہیں نمٹ رہیں،کچھ کی گورننس اچھی ہے، پاکستانی تناظر بھی کچھ مختلف نہیں، پہلی لہر میں ہم نے کامیابی سمیٹی، اس کا کریڈٹ بھی لیا اور اب ہم ٹوٹل لاک ڈاؤن پر مجبور جب کہ جلسوں کی تقابلی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔
کوئی ایسی قومی شخصیات نہیں جو مصالحت اور مفاہمت کراسکیں، وہ چاہے ممتاز دانشور فرید ذکریہ ہوں یا فرانسس فوکویاما، سب کی نگاہ کورونا وائرس سے ماورا انسانی ترقی میں توازن اوررفتار، حکومت کے کورونا سے نمٹنے کی صلاحیت ، قومی استقامت، مارکیٹ فورسزکے عمل دخل، عوام کے لیے فوڈ سیکیورٹی، بیروزگاری ،مہنگائی پر ہے، وہ کہتے ہیں گلوبلائزیشن کا کیا رول ہے۔
یاد رہے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتیریس نے کورونا وائرس سے نمٹنے میں عالمی سیاست کے قائدانہ کردار، وژن اور عملداری پر مایوسی کا اظہارکیا تھا، آج دنیا کورونا کی دوسری لہرکے منجدھار میں امریکی جمہوریت کے بحران پر افسردہ ہے ، ٹرمپ اور جوبائیڈن کے صدارتی انتخابات نے دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت کو سوالیہ نشان بنادیا ہے، تقابل مناسب نہیں لیکن پاکستان اور امریکا کی سیاسی صورتحال میں کورونا کا کردار ایک اہم استعارہ ہے، دوسری طرف آپ دیکھیں امریکی میڈیا کئی سالوں سے جمہوریت کے تاریک راہوں میں مارے جانے کا نوحہ لکھ رہا ہے۔
ماہرین کہتے تو یہ ہیں کہ کورونا سے نمٹنے میں جمہوریت بہتر رہی ہے لیکن ساتھ ہی وہ برطانیہ ،امریکا، اٹلی اور فرانس کی حالت زار کا حوالہ دیتے ہیں، ہمارے ملکی ماہرین بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ناکام تو امریکا اور برطانیہ کا صحت سسٹم بھی ہوا ہے،کورونا کی متفقہ ویکسین کا انتظار ہے ، بس اس کی شہرت کے افسانے پھیلے ہوئے ہیں، مغربی دنیا کے مستحکم ترین انفرااسٹرکچر نے کورونا سے ہار مان لی۔ اس لیے پاکستان کے لیے صائب حکمت عملی گورننس کی فعالیت اور فوکسڈ سیاسی مسافت میں مضمرہے۔
تضاد، تصادم ، کشمکش،محاذ آرائی،الزام تراشی اور انسانی تقسیم جمہوری عمل کو بے شجر کردیتی ہے، جب حکومت کا ٹارگٹ سماجی ترقی اور عوام کی آسودگی سے ہٹ جائے تو کوئی تیر ٹھیک طرح سے اپنے ہدف پر نہیں بیٹھتا، عوامی فلاح وبہبود کے سارے کام اپنی مقصدیت کھو دیتے ہیں۔
بھارت کا حشر دیکھ لیں،کورونا سے پہلے اس کا تیسری دنیا میں ہیلتھ انفرااسٹرکچر مضبوط تھا لیکن جمہوری غارت گری،آمریت اور انسانی دشمنی کے جنون نے اسے کورونا کے ساتھ زمین پر دے مارا، لیکن جن ملکوں نے کورونا کی سرکاری اسٹرٹیجی سے بغاوت کی اپنے وسائل اور حکمت عملی پر بھروسہ کیا وہ ملک قیادت کی فعالیت، ایمانداری ، عوامی اعتماد اور یقین کے سہارے آج بھی کورونا سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔
ان کی ترکش میں قابل عمل منصوبوں اور نتیجہ خیز حکمت عملی کے کئی تیر موجود ہیں۔ ان ماہرین سے پوچھا جاسکتا ہے کہ بندہ پرور ! پاکستان کوکیا کرنا چاہیے کہ ملک میں سیاسی استحکام، عوامی آسودگی، خیرسگالی، تحمل، تدبر اور پارلیمانی اقدار فروغ پائیں، ہمارے اندرکا وحشی سیاستدان چین سے رہنے کو ترجیح دے۔ یقیناً اس کا جواب ان ہی کی صفوں سے یوں آئے گا کہ ایک اہل ، متحرک اور معتبر ریاستی اور حکومتی نظام کو ترجیح ملنی چاہیے۔
گورننس کا معیار بلند کیا جائے، جمہوریت انسٹرومنٹل ہو، ادارے کورونا سے نمٹنے میں پیش پیش ہوں یاکہ عوام بھی سیاسی تصادم ترک کرکے جمہوری قافلے میں شریک ہوں، بعض لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسئلہ سیاسی نظم کا نہیں، ریاست کی موثریت کا ہے۔
عوام قیادت پر اعتماد کرے، لیڈرشپ پر یقین جمہوری عمل کی بنیادی شرط ہے، طرز حکومت بریک تھرو نہیں کرتی،لیڈرشپ راستہ دکھاتی ہے ، لوگ اس پر چلتے ہیں، دیکھ لیجیے پاکستان کے عوام نے کورونا سے نمٹنے میں کیا کچھ نہیں کیا، ان کی آسودگی ،روزگار، رزق کی فراہمی اور صحت و علاج کی سہولتوں کے فقدان کے باوجود محنت کش اور غریب طبقے نے کورونا کے خلاف غیر معمولی قربانیاں دیں، ان سے گلہ نہ کریں۔
عوام کو ایک مشترکہ مقصد پر جمع کرنا ہی آج کا اہم سوال ہے، قیادت جلسے جلوس نہیں چاہتی تو طے کرلے کہ کوئی وزیر، مشیر، گورنر یا وزیراعظم جلسے نہیں کرے گا اور کورونا کی دوسری لہر سے جنگ میں پوری قوم کو شامل کرے گی۔
اس کے پاس ایک پیغام اپوزیشن کے لیے بھی ہونا چاہیے کہ جلسے نہیں قوم کی جان بچانی ہے ،آؤ ساتھ مل کر اس جنگ میںکورونا پر فتح پاتے ہیں۔ مسئلہ لیڈرشپ کا ہے۔
حیات لے کے چلو ،کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
The post کورونا سے نمٹنے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35W21GL
0 comments:
Post a Comment