Ads

وادی سوات کے سیلیٹی رنگ، جھیل مہوڈنڈ کے سنگ

اگرچہ ہم بادشاہ نہیں تھے لیکن پھر بھی ہم ایک ایسی وادی میں جا رہے تھے جو بادشاہوں کے دلوں کو خوش کرتی ہے۔

اور گرچہ ہم تارڑ کی ” راکھ ” کے گزرے زمانوں والے مشاہد بھی نہیں تھے۔ پھر بھی ہمیں وہ سلیٹی رنگ اپنی طرف کھینچتے تھے، جو اس وادی کی شناخت ہیں۔

اور یہ سلیٹی رنگ کس وادی کی شناخت ہیں؟

یہ سلیٹی رنگ وادی سوات کی شناخت ہیں۔

فرق صرف اتنا تھا کہ مشاہد کو یہ سلیٹی رنگ ہر دسمبر میں بلاتے تھے مگر ہمیں یہ جون اور جولائی میں بلا رہے تھے۔

ہمیں وہ جھیل اپنی طرف بلا رہی تھی جس کے پانیوں میں ہمیں اترنا تھا۔

ہمیں وہ فضائیں بلاتی تھیں جن کی ہواؤں میں ہمیں سانس لینا تھا۔

ہمیں وہ سنگ ریزے بلاتے تھے جو ہمارے قدموں کو چومنے کے لیے بے تاب تھے۔

میں سیالکوٹ سے راولپنڈی کے لیے بدھ کی رات کو نکل پڑا تھا۔ بدھ کی رات موسم بھی کافی دل فریب تھا۔ سارا راستہ بادل چھائے رہے اور کہیں کہیں بارش کی چند بوندیں گریں۔ موسم کے ساتھ چاند بھی خطرناک حد تک خوب صورت تھا۔ ایک تو چودھویں کی رات تھی، دوسرا وہ بادلوں کے ساتھ مل کر اٹھکیلیاں کر رہا تھا۔

کہیں وہ بادلوں کے پیچھے چھپ جاتا تھا اور کبھی اپنا مکھڑا دکھا کر ظلم کی انتہا کردیتا تھا کہ چاند کے عاشق اب جائیں تو جائیں کدھر۔ میرا محبوب میرے سامنے تھا مگر میری پہنچ سے بہت دور تھا۔ شاید یہی محبوب اور محبت کی خوب صورتی ہے کہ وہ آپ سے بہت دور ہو کر بھی آپ کے پاس ہوتے ہیں۔ آپ کو سب سے بے گانہ کردیتے ہیں اور مکمل طور پر اپنے حصار میں رکھتے ہیں۔

بڑی بے صبری سے میں سوہنی کے چناب کا انتظار کرنے لگا کہ چناب کے پانیوں میں اپنے محبوب چاند کو دیکھوں گا۔ واللہ اس نظارے کو سوچ کر ہی میں خوش ہو رہا تھا۔ وصال سے زیادہ تصور وصال میں خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ جونہی گاڑی چناب کے پل پر آئی تو میں نے اشتیاق بھری نگاہوں سے نیچے دیکھا، مگر یہ کیا۔۔۔؟ چناب کے پانیوں میں مجھے چاند کا عکس نہ دکھا۔ سوچا کہ شاید چاند کے آگے بادل آ گئے ہوں گے۔ فوراً آسمان کی طرف دیکھا، مگر وہاں تو چاند موجود تھا۔ ذرا حیرانی اور پریشانی کے عالم میں دوبارہ چناب میں دیکھا۔ تب جا کر احساس ہوا کہ نیچے تو پانی ہی نہیں تھا۔ یقیناً یہ وہ چناب نہ تھا جو سندھ طاس معاہدے کے بعد ہمیں ملا تھا۔ یہ وہ چناب نہیں تھا جس کا ضامن ورلڈ بینک تھا۔ اس کے پانی پیچھے اور بہت پیچھے روک دیے گئے تھے۔

میری ساری خوشی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ مجھے اس وقت ” بہاؤ” شدت سے یاد آ رہا تھا۔ سرسوتی جو بڑے پانیوں کی ماں اور ساتویں ندی تھی، شدت سے یاد آ رہی تھی۔ چاند کی روشنی میں چناب کنارے بیٹھے کچھ لوگوں میں مجھے پاروشنی، ورچن اور سحرو کا عکس دکھائی دے رہا تھا جو ”بڑے پانیوں ” کے انتظار میں تھے۔ تو کیا چناب بھی ایک اور سرسوتی بننے جا رہا تھا؟ کیا چناب کی تہذیب بھی مٹنے جا رہی تھی؟ میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔

گاڑی تیزرفتاری کے ساتھ اپنی منزل کی جانب دوڑ رہی تھی۔ رات اور بارش کے سبب جرنیلی سڑک پر زیادہ گاڑیوں کا ہجوم نہ تھا، کچھ ہی دیر بعد جہلم ٹول پلازہ آ گیا اور میرے دل میں پھر سے آرزو جاگی کہ چاند کا عکس جہلم کے پانیوں میں دیکھا جائے، مگر یہاں بھی حالات کچھ مختلف نہ تھے۔ پہلے میں جب بھی جہلم کے پل سے گزرتا تھا تو انورمسعود یاد آ جاتا تھا اور اس کے یاد آنے سے پہلے ہی چہرے پر مسکان آ جاتی تھی۔

”کھٹ کے چلانے نہیں میں کارخانے دوستو

چار آنے، چار آنے، چار آنے دوستو”

مگرآج مجھے ٹلہ جوگیاں کا وہ شاعر نصیر کوی یاد آ رہا تھا، جس نے بہت عرصہ پہلے جہلم کی اسی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

مندر، گرجے، مسجد دے پیراں نوں دھو کے لنگھدا ایں

گردوارے متھا ٹیکن لئی کھلو کے لنگھدا ایں

ہن منہ پھیر کے ستا رہنا ایں تیریاں راہواں ملاں کتھے

جہلم تیرے پانیاں اندر پہلے جیہیاں گلاں کتھے

تقریباً 3 بجے تک میں روالپنڈی پہنچ چکا تھا جہاں میرا دوست خذیفہ میرا منتظر تھا۔ ہماری اگلی منزل مینگورہ تھی جو تقریباً چھ گھنٹے بعد آنی تھی۔ چار بجے کے قریب ہماری گاڑی آ گئی۔ کہتے ہیں کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے اور میں تو دو دن سے جاگ رہا تھا۔ اس وقت میری کیا حالت تھی کہ میں جانتا ہوں یا پھر میرا رب۔ہم نے گاڑی میں سامان رکھا اور فوراً ہی سو گئے۔ ہمیں مینگورہ سے بحرین اور پھر کالام جانا تھا۔ گاڑی کہاں جا رہی تھی، کہاں کہاں رک رہی تھی، ہمیں ذرا بھی ہوش نہ تھا۔ ایک لڑکے کی کان میں آواز پڑی۔ ” لو جی پہاڑی علاقہ شروع ہو گیا۔” اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ گھڑی کی سوئیاں تقریباً آٹھ بجا رہی تھیں۔ اور موسم بھی کافی خوش گوار ہوچکا تھا۔ مردان، تخت بائی اور نہ جانے کون کون سا شہر گزر چکا تھا۔ بھوک بھی اب اپنے لگنے کا احساس دلا رہی تھی۔ ہم وادی سوات میں داخل ہو چکے تھے۔ ہر طرف سبزہ تو تھا مگر وادی سوات کے سیلیٹی رنگ ابھی ہم سے پردہ کیے ہوئے تھے۔

مینگورہ گزر چکا تھا اور اب ہماری گاڑی بحرین کی جانب رواں دواں تھی۔ اگر آپ مقامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنا چاہیں تو مینگورہ سے بحرین یا کالام تک کی گاڑی آپ کو آسانی سے مل جائے گی۔ مینگورہ میں دو bus stands  ہیں۔ ایک پشاور bus stand  ہے جہاں سے گاڑیاں دور کے شہروں کو جاتی ہیں جب کہ دوسرا bus stand  قریب کے شہروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کالام کے لیے آپ کو گاڑی دونوں bus stands  سے مل جاتی ہے۔ راولپنڈی سے چوںکہ ہماری کوسٹر booked  تھی، اس لیے ہم مینگورہ میں نہیں رکے اور سیدھے بحرین کو چل دیے۔

بحرین سے بہت پہلے ایک مقام پر بہت تھوڑا مگر ذرا تیز پانی تھا۔ ساتھ ہی ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا تو ناشتے کی غرض سے وہاں رک گئے۔ شروع میں یہ پانی میرے ٹخنوں سے بھی نیچے تھا۔ یہیں پتھروں کے پاس ہی بائیں جانب ایک Class 5th کا بچہ بھی میرے پاس ہی کھڑا تھا۔ (ہماری گاڑی میں ایک فیملی بھی تھی اور یہ بچہ انہی کا تھا)۔ اچانک اس کی ماں چیخی کہ میرے بچے کو بچاؤ۔ میں تھوڑا آگے بڑھا مگر تھوڑا اور معصوم نظر آنے والا پانی اس قدر تیز تھا کہ میرا اپنا Balance  بری طرح بگڑا اور میں وہیں رک گیا۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ بچہ ڈوبتا ہوا دور اور بہت دور ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ پانی آگے جا کر مڑ گیا اور وہ بچہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ پیچھے سے جا کراس بچے کو پکڑنا ناممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ذرا فاصلے پر ایک مقامی بندہ کھڑا تھا۔

اس نے صورت حال کو سمجھا اور ڈوبتے ہوئے بچے کے ساتھ ساتھ سڑک پر دوڑ لگانا شروع کر دی۔ بچے سے آگے نکل کر اس فرشتہ صفت انسان نے پانی میں چھلانگ لگا دی اور پھر بچے کو پکڑ کر باہر نکالا۔ وہ مقامی تھا اسی لیے جانتا تھا کہ بچے کو پیچھے سے پکڑنا ناممکن ہو گا۔ ورنہ ہم میں سے کوئی اگر تیرنا جانتا بھی ہوتا تو وہیں سے کودتا۔ بچے کی جان تو جاتی ہی جاتی، شاید اس کی اپنی جان بھی مشکل میں پڑجاتی۔ خدارا جب بھی سیر کے لیے جائیں تو خود بھی پانی سے دور رہیں اور بچوں کو بھی پانی سے دور رکھیں کیوںکہ پانی صرف اور صرف بہنا جانتا ہے، بہاؤ جانتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے کسی رشتے سے کوئی غرض نہیں کہ ڈوبنے والا کسی کا اکلوتا بھائی ہے یا کسی کا اکلوتا بیٹا۔

ناشتے کے بعد ایک بار پھر سفر کا آغاز ہوا۔ ایک خاص موڑ کے بعد پانی نے ہمارے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا تھا۔ جوں جوں ہم بحرین سے قریب ہوتے جا رہے تھے توں توں پانی کی چنگھاڑ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پانی کی چنگھاڑ اور خوب صورتی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ بعض اوقات شور اتنا بڑھ جاتا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ خوب صورت نظر آنے والا پانی اب خطرناک حد تک چنگھاڑ رہا تھا۔ ایک نالے کی صورت میں بہنے والا پانی کب دریائے سوات میں تبدیل ہو گیا تھا ہمیں پتا ہی نہیں چلا تھا۔ دریائے سوات اب شیردل بنتا جا رہا تھا اور ہم بحرین پہنچ رہے تھے۔

بحرین شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے کچھ بے انتہا خوب صورت پوائنٹس آتے ہیں جہاں شیردل دریائے سوات اچھی طرح چنگھاڑتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے لیکن اگر آپ وادی سوات کے اصلی سلیٹی رنگ دیکھنا اور بروقت کالام پہنچنا چاہتے ہیں تو چپ چاپ بحرین سے آگے کو نکل جائیں کیوںکہ اصل سوات تو کالام کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مینگورہ، مدین اور بحرین تو شہر ہیں لیکن کالام کالام ہے اور ضمیر جعفری کی بات کے آگے اور کس کی بات ہو سکتی ہے کہ

جام تک آئے مئے گلفام تک آئے نہیں

جو سوات آئے مگر کالام تک آئے نہیں

دریائے سوات کی دوسری طرف جانے کے لیے تھوڑے فاصلے پر Hanging Bridge موجود تھے۔ چھوٹے چھوٹے مقامی بچے ان پر بھاگ رہے تھے جیسے ہم لوگ اپنی گلیوں میں گھومتے ہیں۔ ہم دونوں بھی لپک کر ایک Hanging Bridge پر چڑھ گئے۔ دریائے سوات کا بہاؤ اس قدر تیز تھا کہ ہمیں پل دائیں جانب چلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میں تو پہلے ہی کم زور دل ہوں، پل کے درمیان سے ہی بھاگ کر واپس آ گیا۔ بحرین کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے اور کوہستانی علاقوں میں شام بڑی تیزی سے اترتی تھی۔ جوں جوں ہم کالام کی طرف بڑھ رہے تھے، خنکی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ شام اتر رہی تھی اور کہیں کہیں اب برفیلی چوٹیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ کالام سے ذرا پہلے کا لینڈ اسکیپ بقیہ سوات سے بالکل مختلف تھا۔

یہ اونچے اونچے پہاڑوں، برفانی چوٹیوں اور تودوں کا علاقہ تھا جس کے پار چترال تھا۔ کالام کا شہر اب آیا ہی چاہتا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو چکی تھی۔ وادی کالام کا حسن ہمیں اپنی بانہوں میں جکڑ رہا تھا۔ ٹھنڈ اچھی خاصی بڑھ چکی تھی۔ ٹوٹا پھوٹا روڈ اب ذرا پختہ ہو رہا تھا۔ ہمارا امتحان ختم ہو چکا تھا۔ وادی سوات میں شام اتر چکی تھی اور سامنے کالام شہر کا مال روڈ نظر آ رہا تھا۔ ہم اس وقت سطح سمندر سے6565 فٹ کی بلندی پر تھے جہاں بارش نے سردی میں اضافہ کر دیا تھا اور مجھ سمیت ہر بندہ کانپ رہا تھا۔

میں نے ایک بڑی بے وقوفی یہ کی تھی کہ کالام جانے سے پہلے اس کے موسم کے بارے میں بالکل بھی معلومات حاصل نہ کی تھیں۔ میں ایسے ہی سیالکوٹ کے موسم کے مطابق کپڑے پیک کر کے چل دیا تھا، جس کا خمیازہ اس وقت کانپ کانپ کر بھگت رہا تھا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ میری ساریShirts آدھی آستینوں والی تھیں۔

باقی سب لوگ اپنے ساتھ گرم Jackets لائے ہوئے تھے۔ سب نے اپنے گرم کپڑے نکال لیے تھے۔ میں نے ایسے ہی شوق میں اپنے بیگ میں دو کرتے رکھ لیے تھے، جن کا اب مجھے واحد فائدہ یہ تھا کہ وہ پوری آستینوں والے تھے۔ جب ہم کوسٹر سے باہر نکلے تو بوندا باندی اب بھی جاری تھی مگر قدرے کم ہو چکی تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ کچھ دیر بعد یہ رک جائے گی۔ دھول مٹی نے سب کا برا حال کیا ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہوٹل میں گرم پانی موجود تھا۔ سب نہا کر تازہ دم ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں سب موسم کے عادی ہوگئے۔ نہادھوکر فارغ ہوئے تو کھانا لگ چکا تھا۔ کالام کی چکن کڑاہی عجیب تھی جس میں چکن کم

The post وادی سوات کے سیلیٹی رنگ، جھیل مہوڈنڈ کے سنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36KJttf
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment