Ads

مرگی … ایک سنگین دماغی مرض

مرگی یا Epilepsy دماغی امراض میں سب سے زیادہ اہم اور عام بیماری ہے جس سے متعلق عوامی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 8 فروری کو عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ ایک سنگین دماغی مرض ہے جسے ہمارے معاشرے میں جن ،آسیب، جادو، ٹونہ یا محض جھٹکے کے طور پر جانا جاتا ہے ۔

سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا میں قریباً آدھ سے ایک فیصد انسانوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں پچاس ملین سے زائد افراد دماغ کی اس بیماری سے متاثر ہیں، جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

جناح ہسپتال کراچی کے شعبہ نیورولوجی کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر 100افراد میں سے ایک کو مرگی ہے۔ بچوں میں اس کا تناسب تقریباً دو گنا ہے۔ اسی طرح شہری آبادی کی نسبت دیہی آبادی میں بھی یہ تناسب دو گنا ہے۔ ہر سال مرگی کے تقریباً 2.4ملین نئے تشخیص شدہ مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مرگی کے متعلق عالمی سطح پر آگاہی کا فقدان ہے بالخصوص ہمارے ملک میں مرگی کا مرض عجیب و غریب توہمات کا شکار ہے۔ دیہی علاقوں میں اس کا تناسب زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں مریض ادویات کا استعمال نہیں کرتے ۔ پاکستان میں شہری علاقوں میں اس مرض میں مبتلا تقریباً 30 فیصد افراد مستقل دوا لیتے ہیں جبکہ یہ تناسب دیہی علاقوں میں صرف 2 فیصد ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں کہ جس کے باعث اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ مرگی سے متعلق بڑے پیمانے پر آگاہی پھیلائی جائے اور خصوصی طور پر صحت کے شعبہ سے متعلق فیصلہ ساز ادارے اس مرض کی اہمیت و نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی سازی کریں۔

مرگی کی بہت سی اقسام ہیں۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ڈاکٹرز تک میں اس کے متعلق آگاہی کی شدید کمی ہے، جس کے باعث مریض کو ٹھیک علاج میسر نہیں آپاتا۔ مریض کو ٹھیک دوا نہیں ملتی یا پھر دوا کی مقدار زیادہ یا پھر ضرورت سے کم مقدار مریض کو تجویز کر دی جاتی ہے۔ بروقت اور ٹھیک علاج کے ذریعے50 فیصد سے زائد مریضوں میں مکمل طور پر مرگی کے دوروں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دورے/ جھٹکے کی دیگر وجوہات کی شرح اموات سے ہٹ کر ساٹھ ہزار انسان مرگی کی وجہ سے اچانک موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

مرگی کی بہت سی اقسام ہیں ۔ آسانی کی خاطر اس مرض کو دو بڑی اقسام میں سمجھا جا سکتا ہے:

1۔ بڑی مرگی،  2۔ چھوٹی مرگی

بڑی مرگی میں مربض بے ہوش ہو کر گر جاتا ہے، اس کو جھٹکے لگتے ہیں اور وہ زخمی بھی ہو سکتا ہے، اس کی زبان بھی کٹ سکتی ہے اور اس کا بول و براز بھی خطا ہو سکتا ہے جبکہ چھوٹی مرگی میں مریض پوری طرح بے ہوش تو نہیں ہوتا مگر گم صم ہو سکتا ہے یا اس کے جسم کے کسی ایک حصے میں جھٹکے لگ سکتے ہیں۔

مرگی کے دورے کے اثرات دماغی متعلقہ خلیوں کے اثرات کی وجہ سے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ہوش اور رویے کا متاثر ہونا اور دیگر علامات جسم کی حرکات و سکنات کو متاثر کرسکتی ہیں۔ مختصراً مرگی کا دورہ دماغ میں برقی خلل کی وجہ سے بنتا ہے۔ پاکستان میں مختلف اقسام کی مرگی کا علاج موجود ہے۔ چونکہ مرگی کے متعلق منفی تاثرات کی بھرمار ہے لہٰذا اس کی ٹھیک تشخیص اور علاج متعلقہ ماہر امراض ِدماغ و اعصاب سے کروانا ضروری ہے۔

مرگی کے مریض میں مبتلا لوگ نہ صرف کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ بہت سے کارہائے نمایاں بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ تقریباً 90فیصد مرگی میں مبتلا انسان ایسے ہیں جن کے دماغ کلی طور پر چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ اگر بچپن ہی میں بچوں کی مرگی کو دواؤں سے کنٹرول کر لیا جائے تو یہ بچے بڑے ہو کر اتنے ہی کامیاب اور خودمختار انسان بن سکتے ہیں جیسے کہ باقی لوگ۔

عالمی سطح پر مرگی کے مرض کا بوجھ بہت زیادہ اور غیر منصفانہ طور پر تقسیم ہے۔ ترقی یافتہ کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک میں یہ تعداد دوگنا ہے جبکہ علاج و تشخیص سہولیات ترقی پذیر ممالک میں محدود ہیں لہٰذا اس کے لیے نہ صرف مریضوں میں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عام لوگوں اور طب سے وابستہ افراد میں بھی بڑے پیمانے پر آگاہی کو پھیلانا بہت ضروری ہے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے اس بیماری کے حوالے سے آگاہی کی کمی نے مریضوں کی مشکلات میں بے انتہا اضافہ کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مرگی کا علاج دستیاب ادویات سے پاکستان میں ایک غریب بھی کروا سکتا ہے۔ 70-80فیصد مریضوں کو سستا علاج میسر آسکتا ہے، شرط ایک ایسے صحت کے نظام کی ہے جو ہمارے پالیسی ساز ادارے غریب کو سامنے رکھ کر ترتیب دیں۔

مرگی سے متعلق شعور پیدا کرنے اور اس کے متعلق توہمات کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بیماری نے آج تک وہ اہمیت نہیں لی، جتنی اس بیماری کا عالمی سطح پر بوجھ ہے۔ یہ عجیب بیماری ہے کہ اس میں مبتلا انسان بیماری کو چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے، نتیجتاً اسے اپنے صحت کے حوالے سے مسائل ہی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، لہٰذا اس بیماری کے متعلق جاننا بہت ضروری ہے ۔ بد قسمتی سے اس بیماری کے متعلق منفی اژدھا مریضوں کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتا ہے۔

مرگی کا علاج آگاہی کے راستے سے ہی گزر کر ہو سکتا ہے۔ ان توہمات کی وجہ سے مرگی کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتی ہے جن میں سب سے زیادہ ڈپریشن شامل ہے۔ ڈاکٹرز کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مرگی کے مریضوں کو کس طرح علاج کی سہولت پہنچائی جاتی ہے۔ مرگی کے 90فیصد مریض اپنے مرض پر قابو پاسکتے ہیں اور عام انسانوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتے ہیں۔

( ڈاکٹر عبدالمالک، لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسری کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر نیورولوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز وہ پاکستان سٹروک سوسائٹی کے نائب صدر اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں۔)

The post مرگی … ایک سنگین دماغی مرض appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3oN4RUP
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment