ملکی سیاسی اور اقتصادی صورتحال بظاہرکسی بڑے بریک تھروکے انتظار میں ہے، تاہم پی ٹی آئی حکومت کو تاحال سیاسی اور معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے ایک اور دریا کا سامنا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کامیاب اور شاندارخطاب کو بعد وطن لوٹے تو انھیں نئے سیاسی روڈ میپ کی روشنی میں اپنا سفر شروع کرنا پڑے گا اور ناگزیر ہے کہ کشمیر کی تہلکہ خیز صورتحال کے درست تناظر میں ملکی صورتحال کا ایک معقول ، دانشمندانہ اور فعال جمہوری لائحہ عمل بھی وضع کیا جائے تاکہ ’’کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل ‘‘ کے مصداق دلفریب اور خوش کن منظرنامہ کے بجائے جن سخت ترین سماجی، سیاسی اور معاشی چیلنجز سے حکمراں دوچار ہیں۔
ان سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی معاملات اور داخلی سیاسی کشمکش کے حل کی تلاش میں کامیابی یقینی بنائی جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورم پر فاتحانہ انداز میں زیر بحث لانے پر وزیراعظم نے جو اہداف حاصل کیے ہیں وہ عالمی سطح پر خوش آیند ضرور ہیں مگر داخلی چیلنجز اعصاب شکن ہیں اور معاشی استحکام کی ملک کو جتنی ضرورت ہے۔
اس کے پیش نظر حکومت کے لیے ایک آل آؤٹ وار کی ضرورت وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ عمران خان کو بعض بنیادی سیاسی حقائق پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے کیونکہ کشیدگی کا لیول اور محاذ آرائی کی شدت جس قدرکم ہوگی، قومی اتفاق رائے کے امکانات اتنے ہی روشن ہونگے اور اس وقت ضرورت ٹوٹل شو ڈاؤن کی نہیں، ایک نئے معاہدہ عمرانی کی ہے جس کا مقصد سیاسی استحکام ، قومی سلامتی کا تحفظ ،خطے میں جنگ کے خطرات کا سدباب اور کشمیر مسئلے پر اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو جمہوری و معاشی طاقت میں بدلنے کی ہے۔
حکومت نے ان نکات پر صبر وتحمل کے ساتھ پیش قدمی کی تو حالات کے بدلنے میں دیر نہیں لگے گی، لیکن بات غیر جذباتی ، اصولی اور ہمہ گیر عملیت پسندی پر مبنی پالیسیوں پر فوری عملدرآمد کی ہے۔اس لیے صائب حکمت عملی جمہوری رویے کا اظہار ہے جب کہ پارلیمنٹ کی روح کے مطابق قانون کی حکمرانی رائج کرنے کی حکومتی کوشش سے رسہ کشی کا ماحول اپنے دی اینڈ کو پہنچ سکتا ہے، ورنہ ’’آگے سمندر ہے‘‘ والی کہانی دہرائی جانے کا خطرہ ہے۔
یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ حکومت کی سب سے بڑی ناقد اپوزیشن جماعتیں ہیں۔ انھیں احتسابی عمل پر شکایات ہیں، جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ کرپشن فری سیاست حکومت کا اصل ایجنڈا ہے۔ نیب آزاد و خود مختار ادارہ ہے ، اس کی تحقیقات و تفتیش سے حکومت کا کوئی سروکار نہیں ، اپوزیشن احتساب کے عمل کو جانب دارانہ اور انتقامی قراردیتی ہے۔
اس کشمکش نے سیاسی عمل کو جمود اور سقوط کے درمیان لا کھڑا کیا ہے، حکومتی وزرا کاکہنا ہے کہ اپوزیشن کی نورا کشتی صرف اپنے کیسز کو سرد خانہ کی نذر کرنے کی کوشش سے مشروط ہے، اور حکومت ’’ کسی کو‘‘ چھوڑنے پر تیار نہیں۔ لہذا اپوزیشن اور حکومت ’’ ڈیڈ اینڈ ‘‘ پر پہنچنے کے قریب ہیں، مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پر یک طرفہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے، حکومت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
اسے گھر بھیجنا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اے پی سی میں مولانا فضل الرحمان سے مشترکہ حکمت عملی پر مشاورت ہورہی ہے، اپوزیشن نے یکجا ہونے کا اعلان کیا ہے ۔ جمہوریت کا سب سے بڑا حسن آزادی اجتماع اور اظہارکی آزادی ہے، تاہم آزادی کوقومی ذمے داری سے جدا نہیں کیا جاسکتا ، ایسی کشیدگی جس سے سیاسی و سماجی نظام کو خطرہ لاحق ہو اور ایک قوم کو جس معاشی استحکام کی ضرورت ہو اسے معرض خطر میں ڈالنے کے اندیشے سر اٹھانے لگیں تو ساری سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دیں۔
سیاست امکانات کا کھیل ہے، حکمرانوں کو ابھی چاہیے کہ وہ اپوزیشن سے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھے، مکالمہ کی ضرورت کسی تصادم سے بہتر ہے۔ سیاست دان اور حکمراں ملک کو درپیش مسائل کو نظرانداز نہ کریں، حکومت کے لیے آپشنز موجود ہیں۔ احتساب کا عمل بلاامتیاز جاری رہے، مگر اپوزیشن کو دیوار سے لگانا بھی مناسب نہیں۔
دریں اثناء سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لینڈ مافیا اور واٹر مافیا کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ یہ ریمارکس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماجی رہنما پروین رحمٰن قتل کیس کی سماعت کے دوران دیے۔ عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو مزید 2ماہ کی مہلت دے دی تاہم پیشرفت رپورٹ 3 ہفتوں میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ بابر بخت قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کس رینک کے افسر ہیں؟ جس پر جواب دیا گیا کہ میں ڈی آئی جی رینک کا افسر ہوں۔ اس پر پھر عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی تک آپ کو تحقیقات میں کیا کامیابی ملی؟عدالتی استفسار پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔
وقت زیادہ گزرنے کی وجہ سے جیوفینسنگ بھی ممکن نہیں۔اس موقع پر انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ مزید ڈھائی ماہ کا وقت دیا جائے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 6سال پہلے ہی گزر چکے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں، یہ معاملہ ایک معمہ بنتا جا رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت اسی لیے پیش آئی تھی کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام صحیح سے نہیں کر رہے تھے۔ انھوں نے استفسارکیا کہ 2013 سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیا کیا؟ کیا یہ مافیاز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے باہر ہیں؟ واضح رہے کہ گزشتہ جون میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ تفتیش کار اب بھی قتل سے متعلق ’’بنیادی فارنسک اور واقعاتی ثبوت‘‘ اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ 2 مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں نے مبینہ طور پر اس ہائی پروفائل قتل کے معمے کو حل کرنے میں بنیادی چیزوں کو نظرا نداز کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت حالات کی بہتری کے لیے کوشش کر رہی ہے، وفاقی کابینہ میں رد وبدل کی اطلاعات ہیں، وزیراعظم نے شہریوں کی درخواستوں پر 4 ہفتوں میں نمٹانے کی ہدایت کی ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ چونیاں کے شرمناک اور درد انگیز واقعہ میں ملوث ملزم کو گرفتار کیاجاچکا ہے، وزیراعظم نے ’’میرا بچہ الرٹ‘‘ کے نام سے ایپ بنانے کی ہدایت کی ہے،آٹے کی قیمت کنٹرول کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔
گوادر بندرگاہ کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے ، پہلی ای کامرس پالیسی کی منظور ڈنگی پھیلنے پر تشویش سمیت سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے اہم مالیاتی اور معاشی اقدامات بھی زیر غور ہیں، مگر حکومت کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں میں سمت کا تعین لازمی ہے، ایک افراتفری اور غیر منظم انتظامی اور ادارہ جاتی انتشارکا تاثر فی الفور ختم ہونا شرط ہے۔ بے یقینی سسٹم کو لے ڈوبے گی۔
ایڈہاک ازم کے خاتمہ ، فیصلوں میں استقامت اور دلیرانہ اقدامات کے لیے اس سے بہتر وقت حکومت کو نہیں مل سکتا۔ حکومت اپوزیشن سے سیاسی کبڈی بند کردے تو اسپورٹس مین شپ کا نیا دور بھی شروع ہوسکتا ہے۔ ایک اسپورٹس مائنڈڈ وزیراعظم کو کسی نصیحت کی چنداں ضرورت نہیں۔
The post سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ضروری appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2oDGeAo
0 comments:
Post a Comment