Ads

پارلیمنٹ کی توقیر اور ڈیڈ لاک کا خاتمہ

ملک کو درپیش سیاسی ڈیڈلاک کے پیش نظر عدلیہ نے اپنے ریمارکس میں حکمرانوں اور اپوزیشن کو صائب مشورہ دیا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے عدالت کے بجائے پارلیمنٹ سے رجوع کریں۔ اس عدالتی انداز نظرکی اساس جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانے سے متعلق تھی ، تاکہ جمہوری منطق اور عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کو عوامی مسائل ، سیاسی ایشوز اور قومی امورکی انجام دہی میں پیش آنے والی دشواریوں کے حل کے لیے عدلیہ کا بار بار رخ نہ کرنا پڑے۔

جمہوری حکومت اور حزب اختلاف اپنے سارے تنازعات کا تصفیہ پارلیمنٹ کے فلور پرکریں۔ لہذا حکومت نے بادی النظر میں اس جمہوری اور آئینی تقاضے پر صادکیا اور جمعرات کو قومی اسمبلی میں ایک گھنٹے میں ریکارڈ قانون سازی کر لی جب کہ اپوزیشن احتجاج کرتی رہ گئی۔ جائیداد میں خواتین کا حق ، وراثت، اعلیٰ عدلیہ میں ضابطہ لباس اور انسداد بے نامی لین دین ترمیمی بل 2019 ء سمیت11بل منظورکیے۔ان میں 9 صدارتی آرڈیننسوں کو بل کے طور پر پیش کیا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے جمعرات کو اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود اجلاس کی کارروائی جا ری رکھی اورکسی کو بولنے کا موقع نہ دیا۔ اپوزیشن ارکان نے گو نیازی گوکے نعرے لگائے، اس دوران پاکستان طبی کمیشن بل 2019 ء منظورکر لیا گیا۔ اپوزیشن نے ’’آرڈیننس فیکٹری ‘‘کے نعرے بھی لگائے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ بلوں کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤکر لیا ۔ اپوزیشن کے مطابق پارلیمنٹ کمزور ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکی پوزیشن بھی چیلنج کی جا سکتی ہے، سینئر اپوزیشن لیڈروں نے کہا کہ حکومت نے پارلیمان کی بے توقیری کی ہے۔

اپوزیشن اورمیڈیا میں اس ریکارڈ توڑ قانون سازی پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ متعدد بل اورآرڈیننس کی یکبارگی منظوری کا قوم اور دنیا کی پارلیمانوں کو مثبت پیغام نہیں دیا گیا، آئین کے تحت قانون سازی کے مسلمہ اصول اور روایات کو بلڈوزکیا گیا، ادھر حکومت کا اس استدلال پر انحصار کرنے کا بھی ایک جواز تھا کہ اپوزیشن قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو ماحولیاتی بدنظمی کے سپرد کرچکی ہے، کوئی سنجیدگی دکھائی نہیںجاتی، اور مسلسل شوروغل اور احتجاج اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑکر اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے، اس طرح پارلیمان کا وقارکیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

یہ ڈیبیٹ ایبل ایشو ہے، جمہوریت دو پہیوں کی گاڑی ہے، جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین ایک مثالی قومی وحدت کا آئینی عکس صاف نظر آنا چاہیے، اور قومی ایشوزکے تصفیے فلور آف دی ہاؤس پر ہوں اور قانون سازی کے عمل میں جمہوری اسپرٹ، آئینی تقاضے اور روادارانہ پارلیمانی رویے پولیرائزیشن اور افراط وتفریط کا کوئی شائبہ نظر نہ آئے۔

میڈیا کے مطابق وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مختلف بل منظوری کے لیے پیش کیے۔اسمبلی نے وراثت بل، پسماندہ طبقات کے لیے قانونی معاونت و انصاف اتھارٹی بل منظورکر لیے۔ قومی احتساب بیورو ترمیمی بل 2019 ء کی بھی منظوری دی گئی ،جس کے تحت احتساب آرڈیننس1999 ء میں ترمیم کی گئی۔ایوان میں مجموعی طور پر 15 بل پیش کیے گئے،جن میں سے 11 کی منظوری دی گئی۔ 9آرڈیننسوں کو بھی بل کا حصہ بنایا گیا، جن میں سے 7 حالیہ جاری ہوئے۔ 3 آرڈیننسوں میں 120 دن کی توسیع دی گئی۔

اجلاس میں وزیر اعظم یا اپوزیشن لیڈر شریک نہ ہوئے۔ ڈپٹی اسپیکر نے 4 بجکر 22 منٹ پر شروع ہونے والے اجلاس میں ساڑھے پانچ بجے وقفہ نمازکیا ، بعدازاںاپوزیشن کے احتجاج کے پیش نظر اجلاس آج صبح 11بجے تک ملتوی کر دیا۔ دریں اثنا قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے سابق صدر آصف زرداری، خورشید شاہ اورسعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیے گئے۔ اسپیکر اسد قیصر نے انھیں اجلاس میں لانے کی ہدایت کر دی۔

حیران کن طور پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ ن کے سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے گئے۔آصف زرداری جعلی اکاؤنٹس ،خورشید شاہ آمدن سے زائد اثاثے اور سعد رفیق ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں گرفتار ہیں۔

دوسری جانب سیاسی کشمکش اور کشیدگی کا جائزہ لیا جائے تو ملکی سیاسی درجہ حرارت کلائمکس پر ہے، مولانا فضل الرحمان نے دو سے تین ماہ میں الیکشن کا مطالبہ کیا ہے، ان کے آزادی مارچ نے پلان بی کی منظوری بھی دے دی ہے جس کے تحت تشدد آمیز سیاسی شوڈاؤن کا خدشہ بڑھ گیا ہے، ادھر وزیر اعظم عمران خان بدستور لو پروفائل میںہیں، ان کی توجہ مہنگائی کم کرنے ذخیرہ اندوزوں پرکریک ڈاؤن کی ہے، وہ افہام وتفہیم سے دھرنے کا معاملہ حل کرنے پر یقین ظاہرکر رہے ہیں ، لیکن سیاسی صورتحال تہلکہ خیز اور بریک تھروکے حوالے سے جوں کی توں ہے، اپوزیشن کی دو جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حوالہ سے سیاسی حلقوں نے دھرنے میں شمولیت سے متعلق تحفظات ظاہرکیے، میڈیا ٹاکس میں حکومتی حلقوں نے مولانا کو بند گلی میں بھیج کر خود کو پر امن آزادی مارچ کی کمٹمنٹ سے مشروط کر دیا ہے۔

حکومتی وزرا، مشرا اور معاونین خصوصی صورتحال کا درست اندازی کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں جب کہ غیر جانبدار مبصرین سیاسی تصادم اور احتجاجی لہر کے پورے ملک میں پھیل جانے کے خدشات کو سیاست دانوں اور حکمرانوں کے سیاسی تدبر اور بصیرت کا امتحان قراردے رہے ہیں۔ جے یو آئی کے سربراہ کا بیانیہ پہلے دن سے وزیراعظم کے استعفیٰ اور نئے شفاف الیکشن کے انعقاد پر ہے، جب کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن غیر فعال ہے، چیف الیکشن کمیشن کے ریٹائرمنٹ میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں، الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری میں تعطل سے یہ ممکن نہیں کہ الیکشن کمیشن کسی بھی بحرانی صورتحال میں الیکشن کرانے کی پوزیشن میں ہوسکتا ہے۔

رہبرکمیٹی نے بھی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، دو دن بعد مارچ کے رخ بدلنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں، مولانا فضل الرحمان کا لہجہ سخت ہوگیا ہے، انھوں نے آزادی مارچ کے ہجوم سے خطاب میں کہا کہ مطالبات نہ مانے گئے توگولیاں کھائیں گے جائیں گے نہیں۔ ن لیگ نے صدر کے مواخذے کے لیے مشاورت کی تجویز دی ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں میں بحث ومباحثہ کے کئی نکات تناؤ کا باعث بنتے جا رہے ہیں ، پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اپنے لیے خود ہی مسائل پیدا کر رہی ہے، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ آرڈیننس لانے والی ہماری حکومت پہلی ہے اور نہ آخری۔

اس رسہ کشی میں معاشی معاملات میں بہتری کا تسلسل بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں موجود ہے، حکومت  اقتصادی چیلنجز سے دوچار ہے، بحران سے نکلنے کا کوئی روڈ میپ قوم کو درکار ہے، وقت آگیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آئین وقانون کی بالادستی کی خاطر مصالحت پر آمادگی ظاہر کریں۔ دوسری صورت میں حالات کسی کے قابو میں نہیں رہ سکیں گے۔

 

The post پارلیمنٹ کی توقیر اور ڈیڈ لاک کا خاتمہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36M1lCb
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment